Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، امت پر فرض

اپنی بھلائی پر قناعت کرتے ہوئے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا ،خود کو بدی سے دور کرکے مطمئن ہو جانا خود غرضی ہی نہیں خود کشی بھی ہے
* * * محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
اسلام کے ارکانِ پنجگانہ ، ایمان، نماز، روزہ، زکاۃ اور حج تو معروف ہیں جن میں سے کسی کا انکار کفر ہے اور ان میں سے کسی کا انکار تو نہ کرنا مگر اس کی فرضیت کا معترف ہونے کے باوجود شیطان کے بہکاوے میں آ کر ان کی ادائیگی میں سستی و تساہل برتنا فسق اور کبیرہ گناہ ہے۔ ان5 ارکان اسلام کے علاوہ بھی کئی امور ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر فرض قرار دئیے ہیں۔ ان میں سے بعض تو فرض عین ہیں اور بعض فرض کفایہ ۔ انہی ثانی الذکر فرائض میں سے ہی اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا بھی ہے جو دین اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے اور اسے قرآن کریم اور حدیث شریف میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا گیا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فرض کفایہ دینے کی دلیل سورہ آلِ عمران کی آیت 104 میں مذکورہ کلمہ ’’مِنْکُمْ‘‘ ہے اور مفسرین کے نزدیک یہاں ’’مِنْ‘‘ تبعیض کیلئے ہے جو کُل افراد میں سے بعض کو خاص کر دیتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس فریضہ کو ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں کے سر سے گناہ اتر جاتا ہے ورنہ سب گنہگار ہوتے ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک فریضہ ہی نہیں بلکہ امت اسلامیہ کی تخلیق کا مقصد بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں اﷲ تعالیٰ نے ’’اصلاحِ عالم‘‘ کی ایک خاص خدمت لینا ہے اور قرآن و سنت میں اس مقصد کے حصول اور یہ خدمت سرانجام دینے کا جابجا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ آل عمران میں ارشاد الٰہی ہے۔ ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ اور تھوڑا آگے چل کر ارشاد فرمایا ’’(مسلمانو! )
اب دنیا میں بہترین امت تم ہی ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدا ن میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اوراﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت میں ’’ا ُخْرِجَتْ للِنَّاس‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کسی خاص نسل ، قوم ملک یا رنگ کے لوگوںکیلئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت و اصلاح کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اس خدمت و اصلاح کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، اس طرح اﷲ تعالیٰ نے وطن پروری و قوم پرستی اور رنگ و نسل کی غیر طبعی تقسیم کو منسوخ کر دیا ہے اور امت اسلامیہ کی رہنمائی، عالمگیر خدمت انسانیت کی طرف کی ہے۔ جنت کے مستحق اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے ( دلی محبت رکھنے والے) رفیق ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں زکاۃ دیتے ہیں ، اﷲ کی اطاعت اور اس کے رسول( )کی اتباع کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقینا اﷲ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ اور اگلی ہی آیت میں فرمایا: ’’ ان (اوصاف والے) مومن مردوں اور عورتوں سے اﷲ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسی جنتیں دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، ان سدا بہار جنتوں میں ان کیلئے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی او ر سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اﷲ کی خوشنودی حاصل ہوگی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس فریضہ کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں نبی اکرمکی جو ذمہ داریاں بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے: ’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو معروف و صیتیں کی تھیں، وہ قرآن کریم کی سورۃ لقمان میں مذکور ہیں، انہی میں سے ان کی یہ نصیحت بھی منقول ہے: ’’ بیٹا نماز قائم کر ،نیکی کا حکم دے اور بدی سے روک۔‘‘ سورۂ آل عمران کی گزشتہ آیت میں امت اسلامیہ کو: ’’(مسلمانوں) دینا میں بہترین امت تم ہی ہو جسے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں اتار اگیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ فرما کر پوری انسانیت کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس تعلیم کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر مختلف موثر پیرائیوں میں پیش کیا ہے اور تنگ نظری و تنگ خیالی کے طلسم کو توڑ کر فرض شناسی کے ایک وسیع عالم کی راہیں کھول دی ہیں۔ چنانچہ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (یعنی اعلیٰ و اشرف گروہ) بنا یا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر ( قیامت کے دن حق کے ) گواہ بنو اور رسول() تم پر گواہ بنیں۔‘‘ امام رازیؒ تفسیر کبیر میں ، امام ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ کَذٰلِکَ‘‘ یعنی اسی طرح کی اس تشبیہ سے مراد ایک تو یہ ہے کہ جس طرح ہم نے تم پر ہدایت کی نعمت پوری کی ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنا کر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ہے۔ دوسری مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم نے تمہارے لئے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیا ہے (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) جو کہ سب قبلوں سے افضل اور انبیاء کے امام حضرت ابراہیم ؑکا قبلہ ہے، اسی طرح ہم نے تمہیں سب امتوں سے افضل امت قرار دیا ہے۔
امام قرطبیؒ و ابن کثیرؒ کے مطابق الوسط سے مراد بہتر افضل ہے جیسا کہ صحیح بخاری، ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ میں خود نبی اکرم سے منقول تفسیر سے ثابت ہے کہ آپ نے ’’وسطاً ‘‘کا معنیٰ ’’عدلاً ‘‘بیان فرمایا جس کا مفہوم ثقہ اور قابل اعتماد، اعتقاد و اخلاق بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ اعتقاد و اخلاق اور اعمال میں معتدل اور اممِ سابقہ کی افراط و تفریط سے پاک اور مبرا امت۔ اسی مضمون کی تشریح سورۃ الحج میں یوں کی گئی ہے: ’’ اور اﷲ کی راہ میں ایسا جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں (اسی کام کیلئے) چن لیا ہے اور تم پر دین کے دائرہ میں کوئی تنگی نہیں رکھی، یہ وہی ملت ہے جو تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی تھی اور اﷲ نے تمہارا نا م اس سے پہلے اور اس کتاب میں بھی مسلم ( یعنی اطاعت گزار) رکھا ہے تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو پس نماز قائم کرو، زکاۃ دو اور اﷲ کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔‘‘
ان دونوں مذکورہ آیتوں کو ملاکر پڑھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی زندگی کا مقصد وہی عالمگیر خدمت انسانی اور اصلاح عالم ہی بتائی ہے نیز یہ کہ دین اسلام کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کوئی تنگی نہیں اور رنگ و نسل ، قومیت اور وطنیت اور زبان کی قیود اس کی برکتوں کو عام ہونے سے نہیں روک سکتیں۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے طریقہ سے پیش کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے: ’’ یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت و اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکاۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے تمام معاملات کا انجامِ کار اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ سورۂ آل عمران آیت 110 میں’’ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ فرما کر اس فریضہ کو عالمگیر پیمانے پر ادا کرنے کا حکم دیا تھا تو یہاں ’’اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ‘‘ فرما کر یہ بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اخلاقی کا م عرب و عجم یا شرق و غرب کیلئے نہیں بلکہ انہیں اس غرضکیلئے روئے زمین کے گوشے گوشے، چپے چپے، دشت و جبل اور بحر و بر ہر جگہ پہنچنا چاہئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خیر امت ہونے کی وجہ سے مسلمان صرف اپنی ذات کی خدمت کیلئے پیدا نہیں ہوئے بلکہ تمام انسانیت کی خدمت ان کا مقصدِ وجود ہے اور ان کے اس شرف کا راز’’ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ اس سے تو کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اپنی بھلائی پر قناعت کرتے ہوئے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا ،خود کو بدی سے دور کرکے مطمئن ہو جانا اور دوسروں کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کرنا ،سب سے بڑی خود غرضی اور انانیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اگر یہ بھی کہہ دیں کہ یہ صرف انانیت و خودغرضی ہی نہیں بلکہ خود کشی بھی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کسی کو غلط کام سے نہ روکنا خود اپنے لئے بھی پیام اجل بن سکتا ہے۔
نبی اکرم نے اس پہلو کو سمجھانے کیلئے نہایت ہی خوب انداز اختیار فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں2 مختلف مقامات پر ارشاد نبویؐ منقول ہے، آپ نے فرمایا: ’’اﷲ کی حدود پر قائم رہنے اور حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے حصے تقسیم کر لئے، کچھ لوگ اوپر کے حصے میں چڑھ گئے اور کچھ نیچے کے حصے میں رہ گئے، جو لوگ کشتی کے نچلے حصہ میں رہے وہ اوپر چڑھ کر پانی لاتے تھے لہٰذا اوپر والوں پر ان کا گزر ہوتا تھا۔ نیچے والوں نے سوچا کہ ہم اپنے جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر کے پانی لے لیتے ہیں تاکہ ( ہمارے بار بار جا نے سے) اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو، اب اگر اوپر والوں نے نیچے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو (جہاز میں پانی بھر جانے سے) ڈوب کرسب ہلاک ہوجائیں گے، اگر انہوں نے نیچے والوں کو روک دیا تو سبھی (غرق ہونے سے ) بچ جائیں گے۔‘‘
بخاری کی اس حدیث میں مذکور نبی اکرم کی بیان کردہ اس مثال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو غلط کام سے روکنا جانبین کیلئے نہ صرف اخروی نجات و ثواب کا باعث بن جاتا ہے بلکہ اس کے نتائج دنیا میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور غلط کام سے نہ روکنا نہ صرف غلط کام کرنے والے کیلئے ہی برا ہے بلکہ نہ روکنے والے کیلئے بھی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے اسی لئے ہم نے برے کاموں سے نہ روکنے کو خود کشی سے تعبیر کیا ہے۔

شیئر: