راجشاہی کالج میں ہند وکلچر غالب تھا، چند بنگالی لڑکے مجھے ملے اور۔۔۔
ایک کاغذ میرے ہاتھوں میں تھما دیا کھولا تو ٹیلیگرام تھا۔ چھوٹے ابا کی طرف سے لکھا تھا " بھیا ایکسپائرڈ " اس سے پہلے کہ میں چکرا کر گرنے والا تھا موسیٰ نے مجھے سہارا دیا
* * *خالد مسعود،ریاض* * *
( چھٹی قسط)
میرے چھوٹے چچا جو اپنے سب بھا ئی بہنوں میں چھوٹے تھے جنہیں ہندو بلوائیوں نے اپنے تئیں جان سے مار دیا تھا راجشاہی میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر نکلے۔ ہم انہیں چھوٹے ابا کہتے ہیں ۔دادی' دادا جان ابا' ابی پھوپھی سب کی محبت و چاہت کا محور تھے ۔اسی طرح چھوٹے ابا بھی ہم سب بھا ئی بہنوں سے بہت محبت کرتے تھے ۔چھوٹے ابا نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہاؤس جاب مکمل کرنے کیلئے ڈھاکا میڈیکل کالج جوائن کرلیا۔
آج بھی یاد ہے ایک مرتبہ میری طبیعت خراب ہوگئی۔ ناک سے خطیر مقدارمیں خون نکل آیا کسی نے ڈھاکا چھوٹے ابا کو خبر کردی وہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر فوری میری تیمارداری کیلئے آگئے ۔ابا اور ابی بہت ناراض بھی ہوئے کہ کیوں خبر کی ایسے وقت میں جب وہ ہائوس جاب میں مصروف تھے لیکن چھوٹے اباً کی ہم لوگوں سے محبت اور انکی شفقت نے انہیں آنے پر مجبور کردیا۔ انہیں مجھے دیکھے بغیر چین نہیں آیا۔ وہ بھی کیا کرتے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور تھے۔چھوٹے ابا اب ایک معروف سائکا ٹرسٹ ہیں اور آجکل امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ ابی کے انتقال کے بعد چھوٹے ابا نے ہی ہماری ضرورتوں کا خیال رکھا۔ آج بھی انکی محبت وشفقت میں کوئی کمی نہیں آ ئی۔۔
ہمیشہ فون کرتے ہیں خیریت پوچھتے ہیں۔ چھوٹے اباً ہائوس جاب مکمل کرنے کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور وہیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ چھوٹے اباً کی شادی میں صرف اباً شریک ہوئے ۔ابی نے کہا بھیا آپ شادی میں شریک ہوجائیں ہم سب کا جانا ممکن نہیں۔۔پہلی بار ہم اباً سے دور ہوئے۔ ایک صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ رمضان کی 27 تاریخ تھی نہ جانے کیوں مجھے فضا بہت سوگوار لگی۔ طبیعت میں بھی اداسی چھا ئی ہو ئی تھی۔ ایسا لگا کچھ ہونے والا ہے۔ بے چینی تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی گھر سے باہر نکل آیا۔ محلے کا ایک ساتھی موسیٰ سامنے مل گیا اس سے بھی ذکر کیا کہ یار طبیعت عجیب سی ہو رہی ہے۔ دل نے کہابک شاپ چلتے ہیں ( اپنی دوکان اردو لائبریری ) موسیٰ کو بھی ساتھ لے لیا۔ لائبریری پہنچنے کے قریب تھا کہ مجھے دور سے نظام بھا ئی نظر آئے جو ہماری دکان پر ملازم تھے ۔ماتھا ٹھنکا کہ۔ وہ دکان بند کرکے کیوں آرہے ہیں پورے جسم میں ایک کرنٹ سی دوڑ گئی دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ قریب آئے تو پوچھا کیا ہوا نظام بھا ئی آپ نے دکان کیوں بند کردی؟ خاموش رہے آنکھیں آنسوئوں سے بھیگی ہو ئی تھیں۔ ایک کاغذ میرے ہاتھوں میں تھما دیا کھولا تو ٹیلیگرام تھا۔
چھوٹے ابا کی طرف سے لکھا تھا " بھیا ایکسپائرڈ " اس سے پہلے کہ میں چکرا کر گرنے والا تھا موسیٰ نے مجھے سہارا دیا میں نے خود کو سنبھالا اپنے غم بھول کر یہ سوچنے لگا کہ گھر میں دادی جان ،دادا جان اور اماں کو کیسے بتائونگا کہ یہ سب کچھ اچانک تھا ۔ابی بھی گھر پر موجود نہیں تھے وہ بھی کام کے سلسلے میں شہر سے با ہرگئے ہوئے تھے۔مگر یہ تو زندگی کی حقیقتیں ہیں۔اللہ اپنے بندوں پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا ہے جتنا وہ سنبھال سکتا ہے۔۔۔۔طبیعت میں سکون طاری ہوا۔ اللہ نے ہم سب کواس اچانک غم کا سامنا کرنے کی ہمت دی اور صبر کرنے کی توفیق بخشی۔۔ابا 27 رمضان کی درمیانی شب کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ابا نے کراچی جاتے وقت ہم سب سے ہماری فرمائشیں پوچھی تھیں کہ کراچی سے تم لوگوں کیلئے کیا لائوں۔ ابا بہت خوش لباس تھے۔۔صبح دکان جاتے تو 10 منٹ کا راستہ آدھ گھنٹے میں طے کرتے ۔راستے میں ہر چھوٹے بڑے کو سلام کرتے ۔ان کی خیریت پوچھتے۔ مجھے یاد ہے جب عید آتی تو کپڑوں کا پورا تھان خریدتے اور گھر والوں کے کپڑوں کے ساتھ محلے میں چند غریب نادار کے لئے بھی کپڑے بنواتے۔مسکینوں کو کھانا کھلاتے ۔یتیموں کی خبر گیری کرتے۔
اکثر و بیشتر دوست واحباب کی گھر پر دعوت کرتے بھی دیکھا ۔دعوت پر امی ( میری چچی ) سے کھانا بنواتے کیونکہ اباً کو امی کے ہاتھوں بنا کھانا بہت پسند تھا۔ اکثر امی جان کو کہتے سنا ہے کہ آپ 4 مہمان کا بتاتے ہیں اور 8 آجاتے ہیں۔ اباً کہتے۔۔تم نے دیکھا نہیں کھانے میں کتنی برکت ہوجاتی ہے ۔کبھی کھانے کم ہونے کی شکایت تمھیں ملی !! امی کو خوف ہوتا کہ کہیں کھانا کم نہ پڑ جائے اور اباً خوف سے نہیں بتاتے کہ تعداد سن کر امی پریشان نہ ہو جائیں اور یہ بھی یقین رکھتے تھے۔ مہمانوں کیلئے کھانا کبھی کم نہیں ہوگا۔یہ انکی اللہ پر توکل کی برکت تھی۔ اللہ اباً کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔۔آمین ہمارے ابی نے ہمیں ابا کی کبھی کو ئی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ابا جسمانی طور پر موجود نہیں تھے لیکن روحانی طور پر وہ ابی میں موجود تھے۔ ابی نے ابا کے حصے کا سارا کام مجھے سونپ دیا یہ کہکر کہ بیٹا اب تم بھیا کی جگہ ہو پھر مجھے سینے سے لگایا اور خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ابا کا انتقال کا سنکر ابی روئے نہیں تھے۔ یقینا ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہوگا۔۔ ابی بھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن انکے یہ لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں۔
یہ 1969ء کی بات ہے اب میں اسکول سے کالج میں آگیا تھا۔ کالج کی اپنی ایک دنیا تھی۔ ہم مسلم اسکول سے پڑھکر آئے تھے یہاں ہندو لڑکوں سے بھی واسطہ پڑا اور پھرمخلوط تعلیم !! کالج کا اپنا ایک بڑا ہال تھا جہاں آئے دن ڈرامے ' موسیقی اور ناچ گانے کا پروگرام ہوتا ۔جس میں کالج کے لڑکے اور لڑکیاں حصہ لیتے۔ یہا ں ہند کلچر غالب تھا ۔ایسے میں چند بنگالی لڑکے مجھے ملے اور بتایا کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔تقاضائے دین کیا ہے اور اللہ کو ہم سے کیا مطلوب ہے ۔انھوں نے چند کتابچے د یئے جو بنگلہ زبان میں تھے۔ اس پر مولانا مودودی کا نام لکھا تھا۔ مولانا سے ایک انجانی عقیدت میرے دل میں پہلے سے موجود تھی ۔جب میں اپنی لائبریری میں مختلف رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا کرتا تھا ایک رسالے میں مولانا کی تصویر دیکھی تھی۔ بلا مبالغہ انکی تصویر نے مجھے بہت متاثر کیا تھا ۔تصویر میں بھی چہرے پر ایک نور کی کیفیت محسوس ہو ئی تھی۔ دل نے کہا ضرور یہ کو ئی عظیم شخصیت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے۔ان ہی دنوں ایک کتاب لاہورسے چھپ کر آ ئی جس پر لکھا تھا " ایک مودودی دس اسلام " میں نے یہ کتاب پڑھی لیکن اس میں لکھی باتیں مجھے فضول لگیں میں بالکل متاثر نہیں ہوا اور نہ میرے دل میں مولانا کی عقیدت میں کوئی کمی ہوئی۔ یہ بھی اللہ کا خاص کرم تھا مجھ پر۔۔
اکثر اخباروں میں خرم جاہ مراد کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا تھا جو جماعت اسلامی کے امیر تھے۔جلسے کی وہ کاروا ئی بھی پڑھی تھی جو ڈھاکا پلٹن میدان میں ہوا تھا۔ اس جلسے سے مولانا کو خطاب کرنا تھا لیکن یہ جلسہ ہنگامے کی نذر ہوگیا اور اسلامی چھاترو شنگھو کے ناظم اعلیٰ کو عوامی لیگ کے کارکنوں نے قتل کر دیا تھا۔لیکن یہ سب خبروں کی حد تک تھا۔ پڑھتا اور گذر جاتا اور نہ اتنا سیاسی شعور تھا مجھ میں۔مولانا کا مکمل تعارف انکی تحریک ان کی جدوجہد، جمعیت کے لڑکوں کے ذریعے کالج میں جانا۔ انھیں پہچانا۔ جمعیت کے ذریعے ہی مولانا کی لکھی چند لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا تو ایک نئی فکر سے آشنا ء ہوا۔ اسکول کی حد تک تو میں میلاد میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا اور عشق رسول صلعم کے حوالے سے باتیں سننے کو ملتی تھیں لیکن عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے مولانا کے لٹریچر سے سمجھ میں آئیں۔
شب برا ت کونڈا ' اور 9/10 محرم گھروں میں بہت زور و شور سے منایا جاتا اور ہم اسی کو دین سمجھتے تھے ۔قرآن کی تلاوت صرف ثواب کیلئے کرتے تھے لیکن قرآن کا پیغام کیا ہے معلوم نہ تھا اسکی فکر بھی مولانا کی تحریروں سے ملی۔ عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹ ونگ چھاترو لیگ تھی۔65ء کی جنگ کے بعد مجیب الرحمن نے احساس محرومی کے نام پر سیاست شروع کی کہ ہم 65ء کی جنگ میں بالکل تنہا ہو گئے تھے۔ نہ ہمارے پاس فوجوں کی زیادہ تعداد تھی ،نہ اسلحہ بارود وافر مقدار میں تھا ،ا ئیر فورس بھی برائے نام تھی اور مغربی پاکستان ہم سے ہزاروں میل دور تھا جس کا زمینی راستہ بھی کوئی نہیں تھا۔ اگر انڈیا مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا تو کوئی سپلائی لائن بھی نہیں تھی۔ بات بھی صحیح تھی۔۔اسکی ان باتوں نے عوام میں بہت اپیل کی۔ ہندو مافیا چھاترو لیگ میں کافی تعداد میں موجود تھی انہوں نے بھی ان باتوں سے عوام کو خوب ایکسپلائٹ کیا۔ غذائی اشیاء کی فہرست قیمتوں کے موازنے کے ساتھ پمفلٹ کی شکل میں ہر جگہ آویزاں کی گئیں۔ جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ مغربی پاکستان میں ہر چیز سستی ہے اور یہاں مہنگی۔اس طرح مغربی پاکستان کے خلاف نفرتیں بڑھتی گئیں۔۔
جماعت اسلامی اور جمعیت پاکستان کا دفاع کرتیں۔ ان ہی دنوں اگرتلہ سازش کیس پکڑی گئی جو ہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش تھی۔۔ایوب خان نے مجیب کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ غداری کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا کہ ایوب خان کے خلاف تحریک چل پڑی ۔دن بدن حالات بے قابو ہوتے گئے تو ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی جس میں اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن مغربی پاکستان کے لیڈروں نے جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے خان ولی خان ، خود ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے شرط رکھ دی کہ شیخ مجیب مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے تو ہم مذاکرات کا بائیکاٹ کریںگے۔ مجبورا شیخ مجیب کو رہا کرنا پڑا۔ مذاکرات بھی ہوئے لیکن اسی دوران یحییٰ خان نے ایوب خان کو معزول کردیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔
( باقی آئندہ)