والدہ نے ہمیشہ مل جل کر رہنے کی تربیت دی،ہوا کے دوش پرگفتگو
زینت شکیل۔ جدہ
کائنات کی ہر شے اپنے خالق کے سامنے سر بسجود ہے ۔انسان اور جنات کو انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ ہر انسان کو فہم وادراک
عطا کیا گیا ہے۔ فہم انتخاب کا حق رکھتی ہے اور انتخاب معیار کی گواہی دیتا ہے۔ ذہانت سمت اختیار کرتی ہے اور سمت منزل کا تعین کرتی ہے،
یہی امتحان زیست ہے۔
ہوا کے دوش پرمحترمہ صبا اکرم بنی اپنے خیالات سے آگاہ کررہی تھیں کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ جو زیادہ اچھا پرچہ حل کرے گا اسکو اسی حساب سے انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔ہر ایک کی ذمہ داری ایک دوسرے سے مختلف ہے مرداور عورت دونوں یکساں عزت واحترام کے مستحق ہیں۔عورت اور مرد صلاحیتوں اور قوتوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،انکے فرائض اور انکا دائرہ¿ عمل بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرے جس سے ان میں وہ خوبیاں پیدا ہو جائیں جو انہیں معاشرے کا بہترین فرد بناسکیں۔
محترمہ صبا اکرم قومی دنوں کو بہت جوش و ولولہ کے ساتھ مناتی ہیں۔ اگر ہمارے ملک کی تمام صوبائی زبانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بہت سی مشترک باتیں سامنے آتی ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام زبانوں میں جتنے بھی شعراءنے شاعری کی ہے، ان میں معمولی فرق کے ساتھ بنیادی طور پر ایک ہی قسم کے عنوانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور عبدالرحمن بابا کے کلام کا موازنہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ان سب نے اپنے اپنے کلام میں عقیدے سے متعلق خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ ان سب کا کلام ان سب کو
اعلیٰ روحانی قدروں کا علمبردار ثابت کرتا ہے۔ ان کا اثر مطالعہ کرنے والوں پر گہرا ہے۔ ان زبانوں کے لکھنے والوں نے اپنی کہانیوں، ڈراموں، ناولوں اور مضامین میںجن چیزوں کو بنیادی جگہ دی ہے، وہ سب قومی اہمیت کی حامل ہیں ۔مثال کے طور پر محنت، سچائی کو خصوصیت کےساتھ ہر مصنف اپنے انداز میں ضبط تحریر میں لے کر آئے اور ظاہر ہے کہ ان موضوعات کی کوئی علاقائی صورت نہیں بلکہ ان کی اہمیت پوری قوم کے لئے مسلّم ہے۔
صبا صاحبہ معلمہ ہیں اور مختلف ممالک کے تعلیمی اداروں سے منسلک رہی ہیں۔ انہوں نے آج کی نوجوان نسل کو جدیدٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کم ہی دیکھا ہے۔اب تو سیلفی کلچر نے اخلاقیات کے ساتھ ساتھ انکی اپنی زندگی اورحد یہ کہ نیک اعمال کوبھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔لوگ عبادت کے دوران بھی اپنی وڈیو بنا کر اسی وقت اپنے رشتہ داروں کو روانہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے عبادت میں وہ یکسوئی حاصل نہیں ہوپاتی جو دراصل مطلوب ہوتی ہے۔
محترمہ صبا اکرم نے بچوں کی تربیت میں والدہ کے کردار کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ مائیں پہلے زمانے میں اتنی تعلیم یافتہ نہیں تھیں جتنی آج ہیں لیکن پرانے زمانے میں ماں ہی وہ ہستی ہوتی تھی جو اپنے بچوں کی تربیت کر کے انہیں اخلاقیات کی بلندیوں تک پہنچاتی تھی ۔آج ہر ایک کے پاس ڈگری ہے اور بچے اپنے رویوں سے بتاتے ہیں کہ وہ اخلاقیات سے کتنے نابلد ہیں کہ کلاس شروع ہوچکی ، ٹیچر پڑھا رہے ہیں اور وہاں سب سیلفی بنوانے میں مصروف ہیں اور اگر انہیںٹوکا جائے اور پڑھائی کی طرف متوجہ کیاجائے تو جواب ہوتا ہے کہ آپ ذرا سا ٹھہر جائیں، ہم سیلفی لے رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو اس میں سراسر قصور طالبعلموں کا نہیں کیونکہ وہ ناقص تربیت کے باعث اس درجے پر پہنچے ہیں اور یہ سب تربیت کا نقص ہے جس میں والدین کے ساتھ اساتذہ بھی شامل ہیں جو ابتدائی جماعتوں میں ٹھوس تربیت سے زیادہ کھیل اور انکی انٹرٹینمنٹ میں انکا وقت ضائع کردیتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ پہلے دین کی تعلیم دی جائے پھر اسکول ومدرسہ کی پڑھائی شروع کرائی جائے۔بچپن میں پڑھائے گئے اسباق ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ وقت پر نماز پڑھنے کی عادت بھی بچپن میں ہی پڑتی ہے۔وقت پر اپنا کام مکمل کرنا ،محنت سے جی نہ چرانا،سستی وکاہلی سے دور رہنا، محنت کواپنا شعار بنانا اور دوسروں کی پریشانیوں اور تکلیفوں کو کم کرنے میں ان کی مدد کرنا، یہ سب اوصاف والدین کی تربیت سے ہی بچے میں پیدا ہوتے ہیں۔
ادب وثقافت کا زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ فن اور فنکار معاشرے کا مذاق پیش کرتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ ہر زمانے کا مذاق انکے قلمکاروں نے اپنی تحریروں میں پیش کردیا ہے۔ اسی لئے ادیب وشاعر کسی بھی معاشرے کا عکس ہوتے ہیں اور کسی اعلیٰ رتبے والی قوم کا انکے اپنے مقتدر طبقے کی لاپروائی سے دوسری قوم ان پر قابض ہو جائے تو کس کس طریقے سے اس قوم کی عزت واحترام میں کمی کرتی ہے اس کی ایک مثال یہی ہے کہ ہمالہ سے خطاب کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہاتھا کہ:
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
مشرق میں دستارفضیلت سفید ہوتی ہے یہ سفید پگڑی عمر اور علم وفضل کی علامت ہے اور ہرایک کے لئے عزت وتوقیر کی علامت ہے اور جب اغیار نے دیکھا کہ اس پگڑی کی کیااہمیت ہے تو اس کی بے توقیری اس طرح کی کہ دربانوں کو کلاہ پہنا کر دروازوں پر کھڑا کردیا۔اس لئے ضروری ہے کہ اپنی آزادی کی شکرادا کریں اور اس کی قدر کریں اور ہر ممکن طور پراپنے وطن کی خدمت کریں ۔ اس کا سب سے آسان حل یہی ہے کہ اپنے آپ کو معاشرے کے بہترین افراد میںشامل کریں۔
اسلامیات میں پوسٹ گریجویشن کرنے والی صبااکرم بنی کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کاذکر بہت احترام سے کرتی ہیں کہ انہوں نے نہ صرف تعلیم دی بلکہ اس کے ساتھ ہماری تربیت بھی کی۔ والد صاحب کی نصیحت انہیں ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ آپ ہمیشہ لوگوں کو عزت دیں،آپ کا بھی احترام کیا جائے گا۔ اچھی بات کہو اور اگر کسی نے کوئی مشورہ مانگا ہے تو اسے اپنی سمجھ کے مطابق بہترین مشورہ دو اور اگر کوئی چاہے کہ اس کی بات کسی کو نہ بتائی جائے تو امانت جان کر اس کی بات آگے کسی کو بھی نہ بتاﺅ۔
صبا کی والدہ محترمہ ریحانہ نے ہمیشہ مل جل کر رہنے کی تربیت دی۔ اپنے خاندان کو ساتھ لیکر چلنے کا بہترین اصول سکھایا۔ انکا کہنا ہے کہ عورت کے لئے گھر کا ہر کام سیکھنا ضروری ہے اور کھانا تو اپنے ہاتھ سے ہی تیار کرنا چاہئے۔
اکرم بنی ایک معروف کمپنی میں سیلز منیجر ہیں۔ اپنے شوق کے تحت ہومیو پیتھک میڈیسن کا کورس مکمل کیا۔ وہ آجکل کمپیوٹر پروگرامنگ اور ویب سائٹ ڈیزائننگ میں مشغول رہتے ہیں۔اکرم بنی کی خواہش ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو مزید ترقی دی جائے اور سیاحت کے لئے آنے والوں کوزیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں ۔اس طرح ہمارا ملک سیاحت کے حوالے سے پوری دنیا کے لئے پرکشش ہوگا۔ اکرم صاحب کا کہنا ہے کہ میری اہلیہ صبا بہت سادہ طبیعت کی مالک ہیں۔ ہر کام منظم طریقے سے انجام دیتی ہیں۔بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے صاحب زادے سعد بنی بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ہیں۔دوسرے صاحبزادے معاذن بنی اکاﺅنٹس کے شعبے میں بھرپور محنت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سب سے چھوٹے صاحبزادے ریان بنی دسویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ وہ امتحانات میں اپنی محنت سے اچھے نمبرلاتے ہیں۔صبا بنی پکوان تیار کرنے اور لوگوں کی دعوت کرنے کی شوقین ہیں۔ اکثر کہیں دعوت میں جاتی ہیں تو کچھ بنا کر لے جاتی ہیں۔ اپنی سہیلیوں میں بہترین کیک تیار کرنے کی ماہر جانی جاتی ہیں اسی لئے ان سے فرمائش کرکے کیک بنوایا جاتا ہے۔
صبا اکرم کو شاعری اچھی لگتی ہے ۔ انہوں نے شاد عظیم آبادی کے چنداشعارسنائے:
ریاضت پیشگان بے ریاکی شان پیدا کر
جو راحت چاہتا ہے دل میں اطمینان پیدا کر
تلاش مذہب حق ہو رہے گی اس کی جلدی کیا
صداقت کھو گئی ہے اس کو تا امکان پیدا کر
عبث اسی خاموشی کے ساتھ رونا چشم تر تیرا
مزا تب ہے کہ ہر قطرے میں اک طوفان پیدا کر
رہے جو یاس سے محفوظ ڈھونڈ ایسی تمنا کو
نہ ہو حسرت کا جسکو خوف وہ ارمان پیدا کر
صبا اکرم بنی سیاحت کی شوقین ہیں ۔ انہوں نے اب تک جتنی جگہوںکی سیر کی ، ان میں انہیں دبئی سب سے زیادہ پسند آیا۔ وہاں کی ملٹی کلچرل سوسائٹی میں وہ سب کچھ دیکھنے ،سمجھنے کو مل جاتا ہے جو کئی ملکوں کی سیاحت کے بعد ہی جاننے کو مل سکتا ہے ۔
صبا اکرم اپنے بھائی بہنوں کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کرتی ہیں۔ انکی بہن اور بہنوئی ڈاکٹر ہیں اور انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ بھائی نے ایم بی اے کیا ہے اور وہ بھی یو کے میں رہتے ہیں۔انکی بھابھی نے بھی بزنس میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے ۔
صبا کا کہنا ہے کہ میرے شوہر اکرم صاحب بہت اچھے میزبان ہیں ۔مہمانوں کے آنے سے خوش ہوتے ہیں ۔بچوں کی تعلیمی کیفیت سے آگاہی حاصل کرتے رہتے ہیں اور جہاں انہیں رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، فوری معاونت کرتے ہیں تاکہ انکا وقت ضائع نہ ہو۔انکا کہنا ہے کہ آجکل بچوں پر پڑھائی کا بوجھ بہت زیادہ ہوتاہے۔اکثر بچوں اور بڑوں کے درمیان بیت بازی کا مقابلہ ہوتا ہے
اور انہیں اس موقع پر علامہ اقبال کے اشعار سنانا سب سے اچھا لگتا ہے۔