والدین کی زند گی سے بہت کچھ سیکھا ، کراچی سے ہواکے دوش پر گفتگو
تسنیم امجد ۔ریاض
اللہ تعا لیٰ نے انسان کو ایسی قو تِ ارادی سے نوازا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مشکل کو خا طر میں نہ لا تے ہو ئے حالات کا خندہ پیشا نی سے مر دا نہ وار مقا بلہ کر تا ہے ۔ کوئی بھی کام کر نے میں اگر نیت خا لص ہو تو ر حمتِ باری ساتھ دیتی ہے اور ہر تد بیر، تقد یر بن جا تی ہے۔ حیاتِ انسا نی کا دوسرا نام سعی و کو شش ہے۔اگر اسے تر تیبِ حیات سے نکال دیا جا ئے تو زندگی کی پو ری سر گز شت ایک بے مقصداور بے کیف داستان بن کر رہ جائے گی۔
ہمارے ارد گر د جتنے چہرے ہیں ، اتنی ہی قسمتیں اور دا ستا نیں بھی موجودہیں جو ہمارے لئے ایک سبق لئے ہوئے ہیں ۔ہر ذی شعور اس سبق سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے ۔اسے ہی آ گہی کہتے ہیںجو ایک رو شنی ہے ۔اردو نیو ز اس روشنی کو چہار سو بکھیر رہا ہے ،اس طرح کہ اردوکمیو نٹی بلا تفریق اس سے مستفید ہو رہی ہے ۔بلا شبہ ایک دوسرے کی جہدِ مسلسل نے قا ر ئین کو عزمِ نو سے ہمکنار کیا ہے ۔
لائقِ تقلید ہیں وہ لوگ جو زندگی میں در پیش بحرا نو ں کا اس بے جگری سے مقا بلہ کرتے ہیںکہ نا ممکن ،ممکن ہو جا تا ہے۔ان کے عزم و حو صلے کو دیکھ کر طو فان اپنی اٹھا ن بھو ل جا تے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو منزل کی جستجو میں ہمت نہیں ہا رتے۔ان کی ہمتو ں کے سا منے منز لیں سر تسلیم خم کردیتی ہیں ۔
اردو نیوز کی آج کی مہمان محترمہ شہنیلا عظیم نے گفتگوکا آ غاز اظہا رِ تشکر سے کیا اور کہا کہ مجھے اردو نیوز کے سلسلے ”ہوا کے دوش پر“میں شمو لیت پر بے حد مسرت ہو رہی ہے ۔زند گی پر اپنے مو قف کے حوالے سے وہ یوں گو یا ہو ئیں:
جتنا جتنا بے ثبا تی کا یقیں آ تا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دلکشی بڑ ھتی گئی
٭٭٭
بڑے تا با ں ،بڑے رو شن ستارے ٹوٹ جا تے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر ، آ سا ں نہیں ہو تا
محتر مہ شہنیلا عظیم ایک ہمہ صفت خاتون ہیں ۔انہوں نے عروس البلاد کرا چی کی گہما گہمی میں آنکھ کھو لی ۔ان کی گفتگو کی شیرینی متا ثر کن ہے ۔نعت خوا نی کا شوق ،طا لب علمی کے زمانے سے ہے ۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعا لیٰ نے مجھے اچھی آواز سے نوازا۔نعت شریف کے حوالے سے میں نے خا صا تحقیقی کام بھی کیا ۔نعت خوا نی کی تا ریخ یہ نہیں بتاتی کہ یہ کب شروع ہو ئی۔حسن نامی ایک شاعر اس حوالے سے تاریخ کے صفحات میں مو جو د ہیں ۔اسلام قبول کرنے سے قبل ان کا شا عری میں ایک نام و مقام تھا ۔مسلمان ہو نے کے بعد انہوں نے نعت طیبہ کہنا شروع کی اور پھرجلد ہی ”شا عرِ دربارِ رسا لت “کے نام سے پہچا نے جا نے لگے ۔نعت گو خواتین میں بھی خا صے نام ہیں ۔ میں نے بی ایس سی آ نرز با یو کیمسٹری کے سا تھ کیا ۔اس دوران اسکول ،کا لج اور یو نیورسٹی کے ہر پرو گرام میں نعت طیبہ کے حوا لے سے نام کمایا۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن سے بھی بلاوے آئے تو میں خو شی سے پھو لے نہ سمائی۔ والدین نے بھی قدم قدم پرمیری حو صلہ افزائی کی ۔والدہ گورنمنٹ اسکول میں پرنسپل کے عہدے پرفائز تھیں۔والد اور والدہ دونوں نے بچو ں کی تر بیت پر خوب تو جہ دی ۔والدہ نے گھر میں بھی اپنی پر نسپلی کے ا صول رائج کر رکھے تھے یعنی نظم و ضبط خو ب تھا ۔
بے شعوری سے شعور یعنی بچپن سے نوجوانی تک کا سفر خا صا طویل ہو تا ہے لیکن بیٹی کے لئے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ سفر آ نکھ جھپکتے گزر گیا ۔دادی کہا کرتی تھیں کہ بیٹی کا وجود تو آ کاس بیل کی ما نند ہے ۔یہ وہ ہستی ہے جوپرایا دھن ہونے کے باوجودبا بل کے گھرمیں سب کی آ نکھ کا تارا بنی رہتی ہے۔ما ں اور باپ کی محبت کا اپنا اپنا انداز ہے۔ما ں کے لئے بیٹی اس کی کل کا ئنات ہوتی ہے لیکن باپ کی محبت پرکھنے کا کو ئی پیما نہ نہیں ۔تحت ا لشعور میں احساسِ جدائی بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی دلو ں میں گھر کر لیتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگا، بس پلک جھپکتے وقت گزرا اورمیری رخصتی کی با تیں ہو نے لگیں ۔میرے آنگن میں گیتو ں کی بہار چھا گئی۔ مجھے تو ایک ہی آ واز کی باز گشت یاد ہے:
سا ڈا چڑ یا ں دا چنبہ ایہہ، با بل اسا ں اڈ جاونا
سا ڈی لمی اڈاری ایہہ، اسا ں وی مڑ نئیں آ ونا
محمد عظیم بیگ میری زندگی میں بہار بن کر آ ئے ۔ان کے لئے تحسین کا اظہار کچھ ایسے کرنا چا ہو ں گی کہ:
پھر تمہیںروز سنوا ریں، تمہیں بڑ ھتا دیکھیں
کیو ں نہ آ نگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے با لو ں میں کو ئی پھول چنا کر تا ہے
گھر کے گلدان میں پھو لو ں سا سجا لیں تم کو
ہے تمہا رے لئے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہا تھو ں میں دعا ﺅ ں سا اٹھا لیں تم کو
عظیم صا حب کی ہمت و حو صلے کی جتنی بھی قدر کی جا ئے، کم ہے ۔انہو ں نے اپنی تلخ زندگی کی کہانی مجھے سنائی تو مجھے یقین نہیں آیا کہ کو ئی اس قدر نا مسا عد حالات سے گزر کر کا میا بی کے زینے پہ قدم رکھ سکتا ہے ۔اپنی مدد آپ کی کہا وت شا ید ایسے ہی لو گو ں کے لئے ہے۔میں بہت خو ش نصیب ہو ں کہ مجھے زندگی کا ساتھی اس قدر با ہمت ملا ۔انہو ں نے ثا بت کر دیا کہ ثا بت قدمی اور استقا مت سے کامیابی و کا مرانی کے نئے در وا ہو تے چلے جا تے ہیں۔ان کی زندگی کی کتاب کی ورق گردانی کے بعد میں اس شعر کی قا ئل ہو گئی:
تندی¿ با دِ مخا لف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اکثر اپنے شوہر پر گز رے حا لات کا سوچ کر میں رو دیتی ہو ں لیکن یہ مجھے حو صلہ دیتے ہو ئے کہتے ہیں کہ اب ہم دو نو ں نے ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے ا پنے بچو ں کے مستقبل کو سنوا رنا ہے ۔حالات کی تلخی کی کو ئی چھا پ ان پر نہیں لگنے دیں گے ۔ہماری شادی کو 19برس ہو گئے۔اللہ تعا لیٰ نے ہمیں 3 بچو ں سے نوا زا ۔بڑی بیٹی وردہ عظیم اے لیول میں ہے ۔محمد منیب عظیم او لیول میں اور محمد ز نیر عظیم پانچویں گریڈ میں ہے ۔
عظیم ، ایک بینک میں وا ئس پریذ یڈ نٹ ہیں ۔ان کی زندگی میں باپ کی لا پروائی نے زہر گو لا ۔مجھے تو یقین تھا کہ باپ وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کا سر پر ست اور کفیل ہو تا ہے ۔اس کی شفقت کے مضبوط حصار میں اولاد خود کو محفو ظ ترین پناہ گاہ کا مکیں سمجھتی ہے۔ما ں کی تر بیت اور باپ کی سر پر ستی کا امتزاج ایک سلجھی ہو ئی اولاد کی صورت میں دکھا ئی دیتا ہے ۔باپ کی تمام تر ذہنی و جسما نی محنت اور کا و شو ں کا مر کز و محور اس کی اولاد ہو تی ہے ۔وہ ایک ایسا راعی ہے جو اپنی رعیت کا نگہبان ہے۔وہ کاند ھو ں کے جھکنے اورچشمے کے نمبر بدلنے کے ساتھ اپنے حصے کے فرا ئض اور ذمہ داریاں ادا کرتا رہتاہے لیکن میرے سسر نے میری سو چو ں کی نفی کر دی ۔
ہماری گفتگو سنجیدہ دور میں دا خل ہو چکی تھی ۔شہنیلا کی آواز بھرا رہی تھی ۔وہ کہنے لگیںکہ عظیم صا حب ابھی ہماری گفتگو میں شریک ہوجائیں گے ۔انہی کی زبا نی سن لیجئے گا۔اس دوران وہ چا ئے بنا لا ئیںاور ادھر ہم نے بھی کپ تھا م لیا ۔دل ہی دل میں ہم آج کی ٹیکنالوجی کی بلا ئیں لینے لگے جو پلک جھپکتے ہی ہمیں کہا ں کہا ں پہنچا دیتی ہے ۔کرا چی میں گو کہ آجکل گر می ہے لیکن چا ئے تو فریش اپ ہونے کے لئے ضروری ہے،خا صکران لمحو ں میں جب نہا یت سنجید ہ گفتگو ہو رہی ہو ۔
محمد عظیم بیگ کی شخصیت سے ہمیں ذرا بھی محسوس نہیں ہوا کہ انہیں کبھی نا مسا عد حالات کا سامنا رہا ہو گا ۔وہ ہنستے ہو ئے بو لے ،میں اللہ کریم کی ر حمتو ں کا شکر کس کس طر ح ادا کر وں ؟میری اتنی اوقات کہا ں کہ میڈ یا کی زینت بنو ں۔کہنے لگے کہ کچھ لو گو ں کے مقدر میں شاید آ ز ما ئشو ں کی سا عتیں زیا دہ ہو تی ہیں اور وہی انہیں کندن بنا دیتی ہیں۔میں بھی حا لات کی بھٹی میں جل کر کندن بنا۔یہ حا لات کو ئی ایسے نہیں تھے جو اکثر سننے میں آ تے ہیں کہ معا شی مسا ئل و غیرہ بلکہ حالات کی ستم ظریفی یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ رشتو ں کی زنجیرکمزو رہو تو ذرا سے جھٹکے سے ٹو ٹ جا تی ہے۔یہ بہت تکلیف دیتی ہے ۔میری کہا نی شا ید ایسی ہے جو کسی کی نہیںہو گی ۔میںبے التفاتیو ں کے بو جھ تلے اسقدر دبا کہ سا نس لینا بھی دو بھر ہو گیا ۔گھر کا ما حول آ نکھ کھو لتے ہی مکدر پا یا ۔ہو ش سنبھا لا تو معلوم ہوا کہ میری ماں، میرے والد کی دوسری بیوی ہیں اور میری والدہ کی بھی والد صا حب سے دوسری شا دی ہے ۔والد کے ان کی پہلی بیوی سے دو بیٹیا ں تھیں اور والدہ کا پہلے شو ہر سے ایک بیٹا تھا ۔میں سو چتا ہو ں کہ ہماری ز ند گی میں بد مز گی کا باب کھلنے کی یہی و جہ تھی ۔ہم دو بہن بھا ئی ہیں۔ما ں کہتی ہیں کہ ہماری دیگر بھائی بہن، پیدا ہو تے ہی انتقال کر گئے ۔اس میںبھی بہر حال اللہ کریم کی کوئی مصلحت ہو گی کیو نکہ بعد کے حالات میں معا شی تنگی نے بھی جینا دو بھر کیا ۔والد کی ملا ز مت بینک میں تھی اور اچھی تنخواہ تھی لیکن ان کے دل میں میری ما ں اور ہمارے لئے کو ئی گنجا ئش نہیں تھی ۔اسی لئے ہم پیسے پیسے کو تر ستے رہے ۔ابا کی کل کا ئنات ان کی بیٹیا ں تھیں۔وہ ان کے کھا نے پینے کا خود خیا ل رکھتے لیکن میں اور میری بہن بھی تو آخر انہی کا خون تھے مگرانہو ں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ سو تیلو ں کا سا رویہ رکھا۔وہ باہر سے آتے ہو ئے کچھ بھی کھا نے پینے کی شے لاتے تو انہی کو دیتے ۔وہ پھل تو روزانہ ہی لاتے تھے۔ ہمارا بھی دل للچا تا لیکن کیا مجال کہ چکھ بھی لیں ۔اکثر میں اور میری بہن چپکے سے پھل چو ری کرنے کی کو شش کرتے اور پکڑے جاتے ۔ہمارا گھر بھی چھو ٹا ہی تھا ۔ایک کمرے میں والد اپنی دو نو ں بیٹیو ں کے ساتھ اور دوسرے میں ہم دو نو ں والدہ کے ساتھ رہتے تھے۔یو ں لگتا تھا دو اجنبی خاندان ایک گھر میں کسی مجبو ری کے تحت رہ رہے ہیں۔
کچھ وا قعات ایسے ہو تے ہیں جو دماغ پر نقش ہو جاتے ہیں اور مٹا ئے نہیں مٹتے ۔ریفر یجریٹر والد کے کمرے میں تھا۔ایک رات ہم فروٹ چرانے گئے تو بہنو ں نے وہا ں نقلی فروٹ رکھ دیا تھا ۔اس پر وہ خوب ہنسیں اور ہماری سبکی ہوئی۔بس کچھ نہ پو چھئے۔آ ج بھی جب فروٹ خرید تا ہو ں تو وہ ا حساس تا زہ ہو جاتا ہے اور دل بجھ سا جا تا ہے ۔ہم نے اپنے باپ کے ہاتھوں والد ہ کو پٹتے دیکھا ۔گا لی گلوچ تو عام روش تھی۔محلے والے ما ں پر ترس کھاتے اور ہمارے سا تھ کو ئی را بطہ نہیں رکھتے تھے ۔شا یدوہ بھی ہمارے ابا سے ڈرتے تھے ۔
میں گور نمنٹ اسکول میں پا نچو یں جماعت میں تھا ،تب میں نے ما ں سے کہا کہ میں بھی کچھ کام کاج کرتا ہو ں تاکہ گھر کے حالات سنور سکیں ۔ یہ سن کر میری ما ں کی آنکھیں بھرآ ئیں۔ وہ ڈبڈبائی آنکھیںمجھے آج بھی یاد ہیں۔انہو ں نے پلو سے آنسوپو نچھے اور منہ دوسری جا نب کر لیا ۔میں ان کے گلے لگ گیا ۔سسک کر بو لا ما ں !
مجھے جینے کا رستہ پھر دکھا دو
مجھے بڑ ھنے کا آ گے حو صلہ دو
ذرا ظلمت کدے میں روشنی ہو
دیا دہلیز پر آ کر جلا دو
ہمارے گھر کے قریب ریلوے اسٹیشن تھا ۔ما ں مجھے آ لو چھولے کا تھا ل سجا کردیتی اور میں اسٹیشن جا کر بیچ آتا ۔ٹرین کے آنے کا وقت ہو تا تو ہا تھو ں ہاتھ بک جاتے ۔اسکول دو شفٹو ں میں تھا ۔اس لئے دوسری شفٹ میں وہا ں جاتا ۔5 ،6 اور کبھی8 روپے کما لاتا تو ایک سکون سا محسوس کرتا کہ ما ں کا سہا را بن گیا ہو ں ۔میرے دو نوں بھا ئی گھی کے کنستر بنانے اور کھڑ کیو ں دروا زوں پر شیشے لگا نے کا کام کرتے تھے۔میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا ۔چھو ٹا تھا شاید ،اس لئے کنستر بناتے یا شیشے لگاتے ہاتھ زخمی ہو جاتے ۔ڈاکٹر کے پاس جاتے تو پیسے لگتے،بہتے خون پرما ں دو پٹہ باندھ دیتی تو آرام آ جاتا ۔نہ جانے اس میں کو نسی دوا تھی۔ان حالات میں سو چتا تھاکہ:
موت تو نام سے بد نام ہو ئی ہے ورنہ
زندگی بھی تو اذیت ہی دیا کر تی ہے
اسی طرح میں میٹرک میں آ گیا ۔اب ایک اسپتال میں مجھے کمپاﺅنڈری مل گئی ۔دن بدلتے محسوس ہو ئے لیکن شاید ابھی حالات کی چکی میں پسنا باقی تھا ۔ڈاکٹر مجھ سے گھر کے کام بھی لینے لگا ۔گا ڑی دھو تا اور سا مان ڈ ھو تا ،پھر بھی وہ خوش نہ ہوتا۔والد نے ایک بیٹی کی شادی کر دی۔ والدہی کے ایما پر ہم نے وہ محلہ چھو ڑ دیا۔نئے گھر میں والد نے میری ما ںکو طلا ق دے دی۔یہ رشتہ تو پہلے ہی کچے دھا گے سے بندھا تھا اوراب وہ بھی نہیں رہاتھا ۔میرا بھائی بھی ما ں کا خیال رکھتا تھا۔ہم الگ ہوئے تو ما ں نے اس کی شادی کر دی۔مشکلات کا ایک نیا باب کھل گیا ۔بھا بی کو ہم ایک آ نکھ نہ بھا تے اور اس نے بھائی کو کچھ اس طر ح بھڑ کا یا کہ اس نے بھی ہمیں گھر چھو ڑ نے کو کہہ دیا ۔میں ماں اور بہن ایک بار پھربے گھر ہو گئے لیکن اب تلک میں کا فی مضبو ط ہو گیا تھا۔میںنے را تو ں کو جاگ کر محنت کی اوربی کام کر لیا ۔مجھے گانے کا شوق بھی تھا ۔قدرت نے آ واز بھی اچھی دی تھی ۔ایک بینک نے مجھے200روپے ہفتہ پر پا رٹ ٹائم کام دے دیا ۔میں نے ایک ہو ٹل میں ویٹر کی ملا زمت بھی کر لی کیو نکہ اب مجھے ہی گھر کا بوجھ اٹھا نا تھا ۔وہاں آ مدنی کا ایک اور در کھلا۔اکثر وہ گا نے کو کہتے۔لو گ بھی اپنی محافل میں بلانے لگے۔حا لات اچھے ہوئے تو بہن کی بھی شا دی کر دی ۔ما ں کے دکھوں میں اس شادی سے اور ا ضافہ ہو گیا ۔داماد نے رہی سہی کسر پو ری کی ۔وہ بھی بیوی کو ما رتا پیٹتا۔ما ں کو چپ سی لگ گئی۔ وہ بیمار رہنے لگی ۔چیک اپ کرا یا تو جگرکے سرطان کی تشخیص ہوئی ۔ما ں نے مجھے شادی کا کہا اور بولیں کہ:
مکیں ہو ں ایسے مکا ن کی جو
گما ں گزرتا ہے، گھر نہیں ہے
شہنیلا میری زندگی میں آ ئی تو یوں لگا آ ند ھیو ں کو راستہ بھول گیا ہے ۔بر سو ں بعد ایک ٹھہراﺅ اور سکون کا احساس ہوا ۔ماں کا شکر گزار ہو ں کہ انہوں نے میرے لئے بہترین ساتھی ڈھو نڈا ۔زند گی کے تجربات سے میں منجھ چکا تھا ۔والد کے برتاﺅ نے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا ۔میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اپنی ازدوا جی زندگی کو خو شگوار تر بنا ﺅ ں گا ۔اسی اثناءمیں ما ں کی بیماری بڑھ گئی اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ۔میں ما ں کو بہت خو شیا ں دینا چا ہتا تھا ۔اس کی زندگی کے دکھ دھو نا چا ہتا تھا لیکن یہ سب خواب ہی رہا ۔ما ں نے رختِ سفر باندھ لیا اور مجھے اکیلا چھو ڑ گئیں۔میں تب بچو ں کی طرح بلک بلک کررویا ،بس نہیں چلا ورنہ ما ں کو مٹی کے نیچے جا نے سے روک لیتا :
اند ھیرا ہو گیا ہمدم
دیا دل کا جلاتا ہوں
چھپا کر آ نسو آ نکھو ں میں
انہی میں ڈوب جاتا ہو ں
ہے تم نے را ستہ بد لا
اکیلا خود کو پاتا ہو ں
عظیم بیگ یہ کہتے ہوئے رو دیئے تو شہنیلا نے انہیں پانی وانی دے کر گفتگو کا سلسلہ آ گے بڑ ھا یا ۔کہنے لگیں کہ ان کی کہانی تو مجھے بھی بہت رلاتی ہے ۔یہ اپنے نام کی طرح ہی عظیم ہیں ۔میں خو ش قسمت ہو ں کہ یہ میرے ہمقد م ہو ئے ۔ آج 19برس ہوگئے، یقین کیجئے اس ازدواجی سفر میں ہمارے درمیان کبھی کوئی رنجش نہیں ہو ئی،الحمد للہ۔انہو ں نے والدین کی زند گی سے بہت کچھ سیکھا ۔از دوا جی زندگی کو خوشگوار بنانے کے گر ان کے جھگڑوں نے سکھا دیئے ۔میں نے نعت خواں ہو نے کے نا تے ان سے در خواست کی کہ اگر آپ گا نا چھو ڑ دیں تو میں اپنے شو ق کی تکمیل کرتی رہوں گی ورنہ دو نو ں کے شوق کا کو ئی میل نہیں ۔نعت طیبہ کا موسیقی سے واسطہ نہیں ۔انہو ں نے مجھے جھٹ کہا نہیں نہیں، میں اپنا شوق چھو ڑ دوں گا ۔آپ جاری رکھیں ۔مجھے بار بار کہنا ہے کہ یہ وا قعی عظیم ہیں۔فیملی کے لئے اپنی ہر خو شی قر بان کر نے کو تیار رہتے ہیں۔ سوچتی ہو ں، اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا علیہما السلام کا رشتہ بنا کر دنیا میں ایک مقدس رشتے کی بنیاد رکھ دی ۔اسی تقدس کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے میری ہر شو ہر اور ہربیوی سے در خوا ست ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دل و جا ن سے چا ہیں ۔کبھی کو ئی سو فیصد پر فیکٹ نہیں ہو تا۔ایک دوسرے کو اس کے منفی و مثبت پہلو ﺅںسمیت قبو ل کریں ۔انسان خطا کا پتلا ہے ۔نا را ضیوں کو پنپنے نہ دیں ۔ایک دوسرے کو اہمیت دینے سے گھر کا ما حول خو شگوار رہتا ہے جس کا اثر بچو ں کی شخصیت پر پڑتا ہے ۔ شو ہرکا درجہ حکمراںکا ہے ۔اس کا احترام اوراس کی خوشنودی کا حصول کار ثواب ہے ۔میں اپنے شوہرعظیم کے لئے کہو ں گی کہ:
جب بھی وہ شخص و صی مجھ سے خفا ہو جائے
ایک سو نا می مرے دل میں بپا ہو جا ئے
ہماری گفتگو طوالت پکڑ رہی تھی اس لئے باقی ہم نے کسی اگلی ملا قات کے لئے چھو ڑ دیا ۔عظیم بیگ نے کہا کہ میںکچھ اشعار شہنیلا کے لئے کہنا چاہو ں گا:
مجھے بزمِ ہستی میں گرتم نہ ملتیں
میری زندگی میں بہا ریں نہ ہو تیں