وہ وقت بھی آیا شاعر کو والدہ کی چوڑیاں فروحت کرنی پڑیں
پروفیسر جمیل کھٹانہ
عبدالحئی ، ساحر لدھیانوی 8مارچ 1921ءکو چوہدری فضل محمد گوجر ذیلدار کے ہاں پیدا ہوئے ۔ بچپن لدھانہ میں گزرا۔ دہم تک تعلیم خالصہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا جہاں سال چہارم تک پڑھتے رہے ۔ کالج یونین کے سیکریٹری اور صدر بھی رہے ۔ سیاست کا شوق تھا اس لئے سزا بھی پائی۔ والدصاحب اپنے انداز کی شخصیت تھے ان میں جاگیر دارانہ اطوار پائے جاتے تھے۔
ساحر کے ابتدا ئی کلام کو کسی رسالے میں جگہ نہ ملی۔ ان کی شاعری میں فیض ، مجاز جوش اور اقبال کا اثر تھا۔معاشرتی ناہمواری کوبرداشت نہیں کر سکتے تھے۔اسی لئے معاشرے کے مظلوم طبقات کی حمایت اور انسان دوستی ساحر کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انہیں بچپن سے تھا۔ بازار جاتے تو کتابیں خرید کر لاتے۔ والدہ کہتیں کہ بڑے ہو کر پڑھنا لیکن وہ کہتے کہ یہ کتابیں ماموں سے پڑھوا لوں گا۔
میٹرک میںپہنچے تو ساحر نے شعر کہنے شروع کر دئیے۔ معروف نعت گو شاعر حافظ لدھانوی جو کالج کے زمانے کے دوست تھے، ان کے بارے میں کہتے تھے کہ ©"ساحر لدھیانوی کا گھرانہ علمی و ادبی نہ تھا۔ نہ شاعری ورثے میں پائی تھی، نہ ہی خوبصورت ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ ماحول نے انہیں بے اطمنانی اور بے کیفی دی۔ ©"
معروف ادبی شخصیت اور صحافی حمید اختر کے بقول "ساحر میرے بچپن کے دوست تھے۔ ان کی زندگی میں بڑے بڑے انقلاب آئے لیکن فن کی حد تک وہ کبھی ایک لمحے کے لئے بھی اپنے مسلک سے ادھر اُدھر نہیں ہوئے ۔"
سا حر کے والد نے اوپر تلے آٹھ شادیاںکیں لیکن اولاد نرینہ سے محروم رہے ۔ ساحر چھوٹے سے تھے کہ ان کے والد نے ان کی ماں کو طلاق دے دی اور اس عظیم عورت نے ایک چھوٹے سے مکان میں رہ کر بیٹے کی پرورش کے لئے اپنی باقی عمر قربان کر دی۔ ریلوے لائن گھر کے قریب تھی۔ ریلوں کی آمد و رفت سے ان کا آرام و سکون متاثر ہوتا تھا۔ سا حر کے ایک ماموںالٰہ آباد اور دوسرے اڑیسہ میں تھے۔ انہوں نے ساحر کی کفالت کی ۔
ساحرلدھیانوی کی شخصیت بڑی پر کشش تھی۔ حافظ لدھیانوی کے بقول "ساحر کا قد لمبا، منہ پر چیچک کے خفیف نشانات ، ناک لمبی، آنکھیں بہت خوبصورت ، دراز پلکیں ، جنہیں وہ ہاتھوں سے درست کرتے تھے۔ مخروطی انگلیوں میں سونے کی انگوٹھی، نرم گفتگو، لہجے میں محبت اور پیار کی خوشبو جس سے کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ان سے ایک بار مل کر دوباری ملنے کو جی چاہتا تھا۔
لدھیانہ کے سرکردہ رہنما رام راج کی صاحبزادی مہندر چوہدری ان کی ہم جماعت تھیں۔ دونوں سامراج مخالف تھے۔ دونوں کے دل مل گئے۔ وہ ساحرکی سوچ، فکرکی مداح ہوگئیں ۔ وہ خود بھی حسین و چنچل تھیں۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک بار ساحر دلِ بے قرار کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کے گاﺅں بھی جا پہنچے پھر اچانک وہ بیما ر ہو کر چل بسیں۔ ان کی موت کا ساحر کو بہت دکھ تھا۔ وہ تپ دق کے مرض میں مبتلاءتھیں۔
ساحر کی دوسری محبت بریندر کور تھیں۔چھٹیوں میں وہ لدھیانہ سے فیروز پور جانے والی لائن پر ان کے گاﺅں بدومل چلے گئے اور نہ جانے کیسے زند ہ سلامت واپس آگئے۔کچھ دنوں بعد لاہور منتقل ہو گئے اور لاہور میں اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔لاہور ،علم و اد ب کا مرکز تھا۔ یہاں پر گوپال مِتل، عبدالحمید بھٹی، ہری چند اختر ، حفیظ ہوشیار پوری، کرشن چندر ، حفیظ جالندھری، عابد علی عابد،احسان دانش ، محمد بن تاثیر اور صوفی تبسم جیسے شاعر موجود تھے۔ انہوں نے جلد ہی کالج کو خیر باد کہہ دیا۔
چوہدری فتح الدین نے جب اپنے قبیلے کا رسالہ ”گوجر گزٹ“ جاری کرنے کا پروگرا م ترتیب دیا تو ان کے باپ اور دیگر لوگوں نے ساحر کا نام مدیر کے طور پر تجویز کیا لیکن ساحر نے انکار کر دیا۔ ان کو اپنے باپ سے شدید نفرت تھی۔ ایک بار جب آمنا سامنا ہوا تو بڑی خوبصورتی سے کنار ے ہوگئے ۔ اولاد نرینہ نہ ہونے پر جب بات کورٹ تک پہنچی تو جج نے ننھے ساحر سے پوچھا کہ کس کے ساتھ رہو گے تو ساحر نے والدہ کی طرف اشارہ کر دیا۔
ساحر کوآغا حشر کے پورے ڈرامے یاد تھے۔ 18برس کی عمر میں انہوںنے جائداد میں حصے کے لئے مقدمہ دائر کیا اور مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں ہوگیا ۔ ساحر نے یہ زمین 1940ءمیں فروحت کر دی ۔ادب لطیف کے مالک چوہدری نذیر احمد کی تنخواہ سے زیادہ ساحرچائے پانی پر خرچ کر دیتے تھے۔ لاہور میںمیکلورڈ روڈ پر کیمونسٹ پارٹی کا دفتر تھا۔ وہ"ادب لطیف "کے مدیر بن گئے جو کہ اعزاز کی بات تھی۔ وہ انقلاب اور انقلابی شاعری کا دور تھا۔ انقلابی نظمیں اس رسالے میں شائع ہوتی تھیں۔ ترقی پسند تحریک بھی زوروں پر تھی۔ وہ اس تحریک سے وابسطہ تھے۔ احمد ندیم قاسمی ، الطاف مشہدی، گوپال مِتل ، کرشن چند پو نچھی ، عارف عبدالمتین ، احمد راہی اور عصمت چغتائی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ اس ماحول نے ساحر کے نظریات و خیالات کو مزید جلا بخشی۔ لاہور میں انار کلی کے باہرنگینہ بیکری اور موچی دروازے کے باہر منزل ہوٹل پر ان کا آنا جانا ہوتا تھا۔ آغا شورش کاشمیری ،انگریز دشمن تحریک میں صف اوّل میں شمار ہوتے تھے۔ انار کلی میں پیسہ اخبار گلی میں ان کے کرائے کے ٹھکانے پر ساحر کا اکثر قیام ہوتا تھا۔
"تاج محل نظم نے ساحر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ لاہور میں ہی ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ"تلخیاں"شائع ہوا۔ جس سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ وہ "سویرا "کے مدیر بھی تھے۔ امرتا پریتم سے ساحر کی ملاقا ت ایک مشاعرے میں ہوئی اورپھر ساحر کی نئی محبت پروان چڑھنے لگی۔ بقول امرتا پریتم ،میں21 برس کی تھی جب خوابوں میں بسا ہوا یہ چہرہ اس دھرتی پر دیکھا اور زبان پر بے ساختہ کسی کا شعر آگیا:
عمراں دے ایس کاغذ اوتے
عشق تیرے انگوٹھا لایا
کون حساب چکائے گا
لتا مگیشکر اور سدھا ملہوترہ جیسی مشہور مغنیائیںبھی ان سے منسوب رہیں۔دوسری عالمی جنگ میں جب انگریز نے دھڑا دھڑ فوجی بھرتی کی تو بڑے بڑے نامی گرامی کامریڈ فوجی عہدوں پر فائز ہو گئے لیکن ساحر اپنی سوچ اور نظریے کے اتنے پکے تھے کہ وہ کسی کے آلہ¿ کار نہ بنے اور اپنی سوچ اور فکر سے وابستہ رہے ۔
ساحر لاہور سے دہلی چلے گئے اور"شاہراہ"کے مدیر ہوگئے ۔ تقسیم کے وقت ان کی والدہ مہاجرین کے ہمراہ لاہور چلی آئیں۔ ماں ہی ساحر کی کل کائنات تھیں چنانچہ وہ ماں کی تلا ش میں لاہور کے لئے روانہ ہوگئے پھر نجانے کیا خیال آیا کہ راستے میں اُتر گئے اور وہی ٹرین سکھ اور ہندو بلوائیوں نے تہہ تیغ کر دی۔ یوں اللہ کریم نے ساحرلدھیانوی کوبچا لیا۔ شاید اس لئے کہ ابھی انہوں نے بہت کچھ کرنا اور دیکھنا تھا۔قمر اجنالوی لکھتے ہیں کہ "میری اور ساحر کی ملاقات 1948ءمیں نشاط سینما ایبٹ روڈ لاہور کے سامنے والی بلڈنگ میںہوئی۔ وہ وہاں اپنی والدہ کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ پڑوس میں ابنِ انشاءکا گھر تھا۔ جہاں پرآنے جانے والوں نے ان کا جینا محال کر دیا۔ ان کو شاہی قلعے کے قصے کہانیاں سنائیںاور باور کرایا کہ یہاں مزدور راہنما ﺅںاور حق بات کہنے والوں کی جگہ نہیں۔جس میں شورش کاشمیری پیش پیش تھے۔جون 1949ءمیں انہوںنے لاہور میں رہائش کے لئے مکان بھی الاٹ کروا لیا لیکن ناچار انہیں اسی ماہ واپس جانا پڑا۔ وہ شدید گرمی میں والٹن ائیر پورٹ پہنچے اور وہاں سے ہندوستان چلے گئے ۔
بمبئی میں بلند ترین مقام پر پہنچنے کے لئے انہیں شدید جدو جہد کرنی پڑی۔ کرژن ادیب کے بقول وہاں پر مدھوک اور سنتوش جیسے ہدایتکار ان کو کرسی پیش کرتے اوراحتراماً کھڑے ہو جاتے لیکن ان کی شاعری کو فلموں میں جگہ دینے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ساحر کو والدہ کی سونے کی چوڑیاں فروحت کرنی پڑیں اور کرشن چندر کی کہانیوں کو خوشخط لکھاجس کا معاوضہ 150روپے ملا ۔ان حالات میں بھی وہ دوستوں کی خاطر مدارت کرتے تھے۔
وہ ساحر جو دن کے گیارہ بجے تک سوتے رہتے تھے، اب صبح 7 بجے جاگتے اور فلم اسٹوڈیو کے چکر لگاتے۔ اس جدو جہد میں ڈیڑھ برس بیت گیا۔ والدہ نے کہا الہٰ آ باد چلے جاﺅ ۔ والدہ ان کی ہر طرح سے دل جوئی کرتی تھیں۔پہلی فلم کا گانا ساحر نے لکھا۔ جب کہ ابراھیم جلیس اور ہاجرہ مسرور نے اس کے مکالے لکھے۔ ایک دن موھن سہگل نے کہا کہ ایس ڈی برمن سے ملو، وہ نئی صلاحیتوں کی قدر کرنے والے موسیقار ہیں۔ ساحر دوسرے دن گرین ہوٹل ملاقات کے لئے پہنچ گئے ۔ ساحر نے گانا لکھا، ایس ڈی برمن نے دھن بنائی۔ وہ گانا تھا:
ٹھنڈی ہوائیں ،لہرا کے آئیں
رت ہے جواں، تم کو یہاں کیسے بلائیں
ساحر نے فلم "نوجوان "کے لئے دوگیت لکھے ۔" فلم پیاسا"سے ان کا عروج شروع ہوا ۔ فلم ریلیز ہوئی تو وہ بلند مرتبے پر فائز ہو گئے ۔ اس کے بعد فلم "بازی"کے لئے نغمہ لکھا” تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے“،یہاں سے ساحر کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔ ساحر ،کرشن چندر کے بنگلے "چار بنگلہ"کو چھوڑ کر چنئی نواس منتقل ہو گئے اور ساتھ ہی فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے صدر بھی بن گئے۔ انہوں نے متعددسدا بہار گانے لکھے جنہوں نے ساحر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
ساحر گانے لکھتے وقت کن مراحل سے گزرتے تھے ، اس کے بارے میں ان کی ماموں زاد بہن انور سلطانہ کہتی ہیں کہ وہ ایک کرب ناک کیفیت سے دو چار ہو جاتے تھے۔ فلم کے مختلف شعبوں میں بھی ان کی گہری نظر تھی۔
ساحر ایک سچہ اور کھرے انسان اور شاعر تھے۔ انہیںقرآن پاک کی کئی آیات مبارکہ حفظ تھیں اور ترجمہ بھی یاد تھا۔ وہ چڑیوں کو باغ میں جا کر دانہ ڈالتے تھے۔ رمضان کریم میں ملازمین کاخصوصی خیال رکھتے تھے ۔ پرانی فضول رسموں سے ان کو چڑ تھی۔ انسانوں کے درمیان فرق رکھنا ان کو پسند نہ تھا اور وہ سائیکل رکشہ جسے انسان کھینچتے تھے ، اس پر وہ کبھی سوار نہیں ہوتے تھے ۔ چھوٹے ملازمین سے ہمیشہ عزت سے پیش آتے تھے ۔ سگریٹ ان کی من پسند تھی۔ سفید کریم کلر کے کپڑے پہنتے تھے۔ ناشتے کے دوران اخبار بینی اور تبصرے ہوتے تھے۔ آملیٹ پراٹھے اور پوریاں من پسند خوراک تھی۔ انور سلطانہ کی بہن سرور سلطانہ کے بقول جانور بھی ساحر سے پیار کرتے تھے۔ وہ گھر میں چڑیوں کو مکھن لگی ڈبل روٹی کھلاتے تھے۔
ساحر کی تصانیف میں "تلخیاں" اردو ہندی ایڈیشن "پرچھائیاں " ، "گاتا جائے بنجارہ"، "آﺅ کہ کوئی خواب بنیں©" شامل ہیں۔ پھرایک وہ وقت آیاجب خالصہ کالج لدھیانہ جس نے ساحر کو اپنے ادارے سے نکال باہر کیا تھا،اس نے 1970میں صد سالہ تقریبات منائیں تو ساحر لدھیانوی کوگولڈ میڈل دیا اور انہوں نے یہ نظم اپنی مادر علمی کے لئے لکھی کہ:
اے سر زمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
با صد خلوص شاعرِ آوارہ کا سلام
1971ءمیں حکومت ہند نے "پدم شری" ،1972ءمیں "© آﺅ کہ کوئی خواب بنیں©" پراردو اکیڈمی ایوارڈ، سوویت اینڈ نہرو ایوارڈ 1973ءمیں مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ سے نوازا۔ نہرو پر لکھی ساحر کی نظم سٹی پارک کرنال میں نہرو کی یادگار کے نیچے کنندہ ہے۔اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔سول لائن لدھیانہ میں ایک سڑک 1975ءمیںساحر کے نام سے منسوب کی گئی۔ کشمیر کی بلند چوٹیوں پر ایک فوجی چوٹی کا نام بھی ان سے منسوب ہے۔
ساحر نے والد کی جائدا د میں سے ایک کوڑی بھی نہیں لی ۔ اس کے والد چوہدری فضل محمد گوجر کی تقسیم سے قبل لدھیانہ سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر واقع بڈھا دریا کے کنارے وسیکھے وال میں جاگیر تھی۔ گاﺅں کی آدھی ملکیت کے مالک تھے، وہ "اعزازی"جج بھی تھے۔ ذیلدار بھی اپنے والد فتح محمد گوجر کے انتقال پر جاگیردار بن گئے۔ ساحر ان کی دوسری بیوی سردار بیگم کے بیٹے تھے جو کہ لدھیانہ کی رہنے والی تھیں۔ ساحر جب تین سال کے ہوئے تو فضل محمد نے ان کی والدہ کو طلاق دے دی۔ والدہ نے ساحر کی پرورش لدھیانہ میں ہی کی ۔
تقسیم برصغیر کے بعد چوہدری فضل محمد گوجر فیصل آباد جا بسے اور یہاں پر چھوٹی اناسی میں زمینیں الاٹ کرا لیں۔ کچھ زمین ضلع جھنگ میں بھی الاٹ کروائی۔ ساحر جب 1948ءمیں والدہ کو تلاش کرتے لاہور آئے تو باپ نے پیغام بھیجا کہ جاگیر سنبھال لو اور میرے پاس آ جاﺅ۔ ساحر نے جواب بھیجا میری ماں ہی میری جاگیر ہے۔ قریب المرگ چوہدری فضل محمد گوجر اپنے ماضی کو یاد کر کے بہت روتے تھے اور اعتراف کرتے تھے کہ ساحر کی والدہ کو طلاق دے کر میں نے بہت بڑی غلطی کی ۔ ان کے انتقال کے بعد زمین دو بیویوں کو ملی ۔ ساحر نے ممبئی کے مرکزی علاقے میں "پرچھائیاں "نامی عمارت جائداد میں چھوڑی۔ ساحر کی والدہ سردار بیگم 31جولائی1976ءکو انتقال کر گئی تھیں ۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد وہ ٹوٹ پھوٹ گئے اور عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد بہت بدل گئے تھے اور آخر کار 25 اکتوبر 1980ءکو ممبئی میں59سال 7ماہ 17دن زندہ رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ساحر اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ :
میں ہر اک پل کا شاعر ہوں
ہراک پل مری جوانی ہے
ہر اک پل میری ہستی ہے
ہر اک پل مری کہانی ہے