Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم و تربیت میں توازن و میانہ روی

    نبی رحمت کے عادات ، اطوار، معاملات اور عبادات میں اعتدال و میانہ روی پائی جاتی تھی ۔ آپ افراط و تفریط سے پاک و صاف تھے ۔ آپ نے ہر چیز میں خواہ اس کا تعلق عبادات و اخلاقیات سے ہو یا معاملات و اعتقادات سے، میانہ روی کو پسند فرمایا ہے اور امت کو بھی اس کی دعوت دی ہے ۔آپنے اپنے پیروکاروں کو بچوں کی تعلیم و تربیت میں سختی اختیار نہ کرنے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی ترغیب دی ہے تاہم آپ  اپنے عزیزوں سے بے پایاں شفقت و محبت اور رحمد لی وہمدردی کے باوجود انہیں کسی بھی خلاف شرع کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔اگر کسی وقت ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو آپ اس سے باز رہنے کی انہیں تلقین فرماتے ۔ ایک مرتبہ بچپن میں حضرت حسنؓ نے صدقہ کی کھجور منہ میں رکھ لی ۔ آنحضرت نے فوراً انکے منہ سے کھجور نکال لی اور فرمایا ’’اے حسن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آل محمد() کیلئے صدقہ کا مال جائز نہیں ‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی رحمت نے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم و تربیت ، عمدہ عادات و اطوار اور بہترین اخلاق و کردار سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے تاکہ ان کے ذہن میں ابتداء سے جائز و ناجائز کی تمیز جاگزیں ہوجائے ۔ یہ بچوں کی تربیت کا بہترین طریقہ ہے۔ نبی رحمت نہ صرف اپنے صاحبزادوں اور نواسوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے اور ان کے ساتھ کھیل کود کرتے بلکہ اپنے پڑوسیوں کے کم سن بچوں کے ساتھ بھی شفقت و محبت اور دلداری کا معاملہ کرتے۔ اسی طرح آپ  اپنی نواسی حضرت امامہؓ کے ساتھ بھی کھیل کود فرماتے تھے ۔ آپ  انہیں بچپن میں اپنے شانہ مبارک پر بٹھا لیتے اور دولت کدے سے باہر جاکر کھلی جگہوں پر ٹہلاتے ۔جب آپ  گھر میں سنن و نوافل میں مصروف ہوتے تو آپ حضرت امامہ کو اپنی گود میںاٹھالیتے۔ جب رکوع میں جاتے تو انہیں زمین پرچھوڑ دیتے پھر جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔
     رسول اللہساری مخلوق میں افضل اور خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں۔ آپ  کی اطاعت اسی طرح تعظیم و تکریم امت پر واجب ہے۔ قرآن پاک میں ایسے لوگوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو رسول اللہ  کو اذیت پہنچاتے ہوں(دیکھئے سورہ احزاب آیت 57 ) احادیث میں آپسے سچی محبت کو ایمان کا جزو قرار دیاگیا ہے۔ کسی مسلم و مومن سے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ آپ کی شان میں گستاخی کرے۔ نامو رعلماء ایسے شخص کے ارتداد اور واجب القتل ہونے نیز دنیا میں اسکی توبہ اور معافی کے نہ قبول کئے جانے کی رائے رکھتے ہیں۔
     قرآن میں یہ ادب سکھایا گیا کہ آپ کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کی جائے نیز اس بے ادبی پر یہ وعید سنائی گئی کہ اس سے اعمال ضائع ہوسکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اس بے ادبی کی وجہ سے ) تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو‘‘( الحجرات 2 )
     رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی ہر ایسے عمل یا ایسی بات سے بچنا نہایت ضروری ہے جو آپ کی شان میں بے ادبی  کے زمرہ میں آتاہو۔

 

شیئر: