(نوٹ: محترم قارئین !خالد مسعود کے ’’ میرا بچپن‘‘ کی 7اقساط ہم شائع کرچکے ہیں ،تاہم ہمیں بھی احساس تھا کہ جس عمدگی کے ساتھ مصنف سقوط ڈھاکہ بیان کررہے ہیں وہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے اور کچھ تشنگی باقی ہے پھر قارئین کی جانب سے بھی ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے اس بات کا اظہار کیاگیا کہ خالد مسعود اپنی یادیں اور خصوصا مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے کی تفصیلات بھرپور انداز میں شیئر کریں جس کے بعد ہماری درخواست پر خالد مسعود صاحب نے ایک مرتبہ پھر یہ سلسلہ وہیں سے شروع کیاہے جہاں سے ٹوٹا تھا۔قارئین کی پسندیدگی ہی ہمارا سرمایہ ہے،آ پ کی رائے اور تجاویز سمیت میرا بچپن اور پردیس کہانی میں شمولیت کے منتظر رہیں گے ۔ہم سے رابطہ کریں:00923212699629یا ای میل کریں[email protected])
ہم بی بی سی کے پروگرام سیربین سنتے ورنہ پی ٹی وی پر ہر طرف امن وسکون تھا،راجشاہی میں معزبنگالیوں کے ساتھ مل کر امن کمیٹی بنائی گئی جس سے بہاری محفوظ تھے۔نعشیں اور زخمی آنے لگے تو شہر نفرت کی لپیٹ میں آگیا
خالد مسعود،ریاض
(آٹھویں قسط)
یہ مارچ 1971 کی بات ہے شیخ مجیب کی سول نافرمانی کی تحریک کے ساتھ ہی اردو بولنے والے" بہاریوں " کے قتل عام کی خبریں مسلسل مل رہی تھیں ۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد ریلوے کے زیادہ تر ملازمین نے کلکتہ اور بہار سے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کی اور مشرقی پاکستان ریلوے کو سہارا دیا اور ان ملازمین نے ہر شہر کے ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی بنے ہوئے کواٹرز میں رہائش اختیار کی۔ المیہ یہ ہوا کہ ان ملازمین کا بھی ان کے خاندان کے ساتھ قتل عام کیا گیا ۔سب سے زیادہ بربادی سانتا ہار ریلوے جنکشن ،پاربتی پور ، دیناج پور، سید پور ، جیسور ، کھلنا ، پاکسی ، چٹاگانگ میں ہوئی ۔ ہمارے کئی عزیز رشتہ دار دوست احباب اس ہنگامے کی نظر ہوئے جنکا آج تک پتہ نہیں چلا کہ ان پر کیا گزری۔ کتنی بے بسی اور لاچاری تھی۔ آج تک روح کے زخم مندمل نہیں ہوئے۔
راجشاہی شہر اس ابتدائی ہنگامے میں محفوظ رہا ۔شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ اس شہر کی کثیر آبادی تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھی جیسا کہ میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ یہ شہر تعلیم کا گہوارہ تھا۔ شہرکے معزز بنگالیوں نے ہر محلے میں امن کمیٹی بنائی جس میں میں بھی شامل تھا۔ ہم رات میں بنگالیوں کے ساتھ ملکر محلے میں پہرہ دیتے کہ کوئی اسطرح کے واقعات رونما نہ ہونے پائے جسکے نتیجے میں " بہاری " راجشاہی میں محفوظ تھے۔
مشرقی پاکستان کی سرحدیں چاروں طرف سے ہندوستان سے ملتی تھیں۔ حد تو یہ تھی کہ ٹرین سے پاربتی پور جاتے ہوئے صرف’’ ھلی ریلوے اسٹیشن‘‘ پاکستان کہلاتا اور اسٹیشن کے باہر کی آبادی ہند میں تھی۔ مجھے یاد ہے ’’ ھلی اسٹیشن‘‘ پر ٹرین رکتی نہیں تھی الا یہ کہ کسی دوسری ٹرین کو گزرنا ہو۔ ورنہ ٹرین تیز رفتاری سے گزر جایا کرتی تھی۔ ہند نے اپنی سرحدوں پر کیمپ قائم کر دیئے جہاں عوامی لیگ کے کارکنان کو عسکری تربیت دینی شروع کردی۔ یہ تربیت حاصل کرنے والوںمیں اچھی خاصی تعداد ہندئووں کی بھی تھی۔ پھر انھیں اسلحہ تھما کر سرحد پار سے بھیجنا شروع کردیا اور مختلف شہروں میں دہشت گردی اور تخریبی کاروا ئیوںکا آغاز ہوگیا۔ ان تخریبی کارروائیوں کو مکتی باہنی (آزادی کی فوج ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب ہر طرف قتل و غارتگری کا بازار گرم ہو گیا تو سرحدوں کی حفاظت پر معمور مشرقی پاکستان رائفلز میں بنگالی فوجیوںنے بغاوت کردی۔ اس رجمنٹ میں اردو بولنے والے اور پنجاب کے لوگ بھی تھے ۔ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والوں کا قتل عام کیاگیا یہاں تک کہ انکے خاندان کو بھی نہ چھوڑاگیا۔
سول نافرمانی کی تحریک اور قتل و غارت گری پر قابو پانے کیلئے پاکستان آرمی ایکشن میں آ ئی چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس وقت فوج کی تعداد بھی کم تھی جو پورے مشرقی پاکستان میں بغاوت روکنے کیلئے نا کافی تھی تو مغربی پاکستان سے فوج کے آنے تک ہزاروں افرادصرف اس جرم میں کہ وہ پاکستان کی حمایت کرتے تھے قتل کر دیئے گئے۔ عوامی لیگ بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے ہر رکاوٹ اپنے راستے سے ہٹانے کے درپے تھی اور ہند ایسے عناصر کی ہر طرح کی امداد دینے میں پیش پیش تھا۔سرحدیں آزاد ہو چکی تھیں ہندوستانی فوج ہزاروں کی تعداد میں مکتی باہنی کی آڑ میں ہر شہر میں داخل ہو چکی تھیں۔خاندان کے خاندان قتل کر دیئے گئے جو زخمی بچ گئے تھے انکی طبی امداد کیلئے ٹرین کے ذریعے انھیں راجشاہی لایا گیا۔ زخمیوں کی زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی جب ٹرین راجشاہی پہنچی تو بہاری کالونی جو ریلوے لائن کی دوسری طرف تھی وہاں کہ لوگوں نے جب ان زخمیوں کو دیکھا تو وہ مشتعل ہو گئے پھر راجشاہی شہر بھی نفرت کی لپیٹ میں آنا شروع ہو گیا۔ راجشاہی شہر دریا پدما کے کنارے آباد تھا۔ دوسرے کنارے ہندکا شہر مرشد آباد تھا جہاں مکتی باہنی کا ٹریننگ کیمپ قائم تھا ۔مکتی باہنی ٹریننگ کے بعد ہندوستانی ایجنٹوں کے ساتھ شہر میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چونکہ پاکستانی فوج کی بہت قلیل تعداد شہر میں موجود تھی اسلئے شہر میں گشت بھی انکا برائے نام رہ گیا تھا اور وہ تقریباً اپنے کیمپ میں محصور ہوکر رہ گئی تھی۔ شہر میں اردو بولنے والوں کیلئے خطرات بڑھتے جا رہے تھے۔ امن کمیٹی بھی ختم کردی گئی تھی۔ پورے شہر میں سناٹا رہنے لگا تھا ۔رات بہت بھیانک اور آسیب زدہ رہنے لگی۔ رات ہوتے ہی ہم ابی کے ساتھ چوکنا رہنے کی غرض سے گھر کی چھت پر چلے جاتے۔ ہر طرف ایک ’’ہو‘‘ کا علم ہوتا۔ وقفے وقفے سے گولیوں کے چلنے کی آوازیں آتیں ایسے میں ہم بی بی سی کا پروگرام سیر بین سنتے جس میں مارک ٹیلی ہرشہر کی تفصیلی خبر دیتا کیونکہ خبروں کا وہی ایک ذریعہ رہ گیا تھا ورنہ پی ٹی وی کی خبریں سنتے تو لگتا ہر طرف سکون ہی سکون ہے۔ ہر وقت یہ خوف رہتا کہ نہ جانے کب ہمارے گھر پر حملہ ہوجائے اسلئے ہم ساری رات جاگ کر گزارتے۔ ابی جان نے ایک دن ہم تینوں بھائیوں سے کہا کہ کیوں نہ ہم احتیاطاً اینٹ اور پتھر جمع کرکے چھت پر رکھ دیں تاکہ حملے کی صورت میں کم از کم ہم اس سے مقابلہ تو کرسکیں۔ اسلحہ تو کوئی ہمارے پاس تھا نہیں۔ ابی نے بتایا کہ پاکستان بنتے وقت جب ہندو بلوائیوں نے ہمارے گائوں پر حملہ کیا تھا ہم نے انکا مقابلہ ان ہی پتھروں سے کیا تھا لیکن یہ بھی تو بتایا تھا کہ وہ تلوار ، خنجر اور ڈنڈے لیکر آئے تھے لیکن اب تو مقابلہ رائفل اور مشین گن سے تھا جو ہمارے پاس نہیں تھا اور مکتی باہنی تو ان اسلحہ سے لیس ہوکر آتے۔ ہم ان پتھروں اور اینٹ سے کیا مقابلہ کرتے اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے دل کے اطمینان کیلئے شائد یہ ضروری تھا۔ہمارا روز کا یہی معمول تھا۔ رات ہوتے ہی ہم چھت پر چلے جاتے۔ خبریں سنتے اور چوکنا بھی رہتے۔ ایسے میں کبھی کتے کے رونے کی آوازیں آتیں۔ گھر کے ساتھ ہی ہندو مارواڑی کا گھر تھا جس کے آنگن میں برگد کا پیڑ تھا۔ اسکے ایک کونے پر الو بھی بیٹھا ہوتا ۔جب وہ اپنی آوازیں نکالتا تو رات مزیدپراسرار اور بھیانک لگنے لگتی۔یہ راتیں ہمارے لئے اذیت ناک ہوتیں۔ آج بھی خیال آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔( باقی آئندہ)