’’ساقی جمیل‘‘ کی ترکیب سورہ الدہر کی آیت 19سے اخذ کی ، ’’صحرانوردی‘‘ مسلمانوں کو دوامِ زندگی کے راز ذہن نشیں کرتی ہے
محمد بدیع الزمان۔ ہارون نگر
اقبال کا کلام میری نظر میں قرآن کی منظوم تفسیر ہے ۔ میرے مطالعہ کے مطابق اقبال کے کلام میں 70تلمیحات ہیں۔ اقبال نے قرآنی آیات یا الفاظ کی منظوم ترجمانی اپنے کلام میں 3 طریقوں سے کی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ کہ انہوں نے اپنے اشعار میں نہ صرف قرآن کے عربی متن کا کوئی لفظ یا قرآنی آیت کا کوئی فقرہ عربی متن میں ہی استعمال کیا ہے بلکہ انہوں نے بہت سے فقروں کو شعرکا مصرعہ بنادیا ہے۔ دوسرا طریقہ ان کا یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی کسی پوری آیت کی تقریباً 4سو سے زائد اشعار میں منظور ترجمانی کردی ہے۔اقبال نے اشعار میں ہوبہو قرآن کے الفاظ کے وہی معنی ادا کئے ہیں جو عربی متن میں وارد ہوئے ہیں۔ ان کا تیسرا طریقہ قرآنی آیات کو ذہن نشین کرانے کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی بہت سی آیات کو جو قرآن کی مختلف سورتوں میں مختلف مقامات پر وارد ہیں انہیں کسی مخصوص نظم کا موضوع بنادیا ہے جیسے ’’بال جبریل‘‘کی نظم ’’الارض اللہ‘‘ جس کے ہر مصرع پر کسی ایک آیت کا اطلاق نہیں بلکہ بہت سی آیات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس مضمون میں اقبال کے کلام میں چند ایسی قرآنی تلمیحات پیش کی جارہی ہیں۔
قرآن مجید میں ’’شَرَاباً طَہُوْراً ‘‘ کاذکر ہوا ہے ۔ اس تلمیح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی شعر ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’عشرت امروز‘‘ میں ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش وسرور
نہ کھینچ نقشۂ کیفیت شراب طہور
اقبال نے یہ تلمیح سورہ الدہر کی آیت21 کے اس فقرے سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا’’اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پلائے گا‘‘
قرآن مجید میں ’’ سَلْسَبِیْلاً ‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ یہ تلمیح اقبال کے کلام میںصرف ’’بانگ درا‘‘ کے 2اشعار میں آئی ہے۔ پہلا شعر ’’عشرت امروز‘‘ کا ہے اور دوسرا ’’صحرانووردی‘‘ کا ہے:
مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیانِ حور نہ ، ذکر سلسبیل نہ کر
اقبال نے سلسبیل کی تلمیح سورہ الدہر کی آیت17اور18سے اخذ کی ہے ، فرمایا گیا ’’ان (جنتیوں) کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی ، یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہاجاتا ہے‘‘ اہل عرب چونکہ شراب کے ساتھ سونٹھ کے ملے ہوئے پانی کی آمیزش کو پسند کرتے تھے اس لئے فرمایا گیا کہ وہاں جنتیوں کو وہ شراب پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی لیکن اس آمیزش کی صورت یہ نہ ہوگی کہ اس کے اندر سونٹھ ملاکر پانی ڈالا جائے گا بلکہ یہ ایک قدرتی چشمہ ہوگا جس میں سونٹھ کی خوشبو توہوگی مگر اس کی تلخی نہ ہوگی اس لئے اس کا نام سلسبیل ہوگا ۔ سلسبیل سے مراد ایسا پانی ہے جو میٹھا، ہلکا اور خوش ذائقہ ہونے کی بناپر حلق سے گزرجائے۔ مفسرین کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ یہاں سلسبیل کا لفظ اس چشمے کیلئے بطور صفت استعمال ہوا ہے نہ کہ بطور اسم۔
اقبال یہاں شعر کے پہلے مصرع میں ’’ساقی جمیل‘‘ کی ترکیب سورہ الدہر کی آیت 19سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا ’’ان (جنتیوں) کی خدمت کیلئے ایسے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھردیئے گئے ہیں‘‘
جہاں تک زیر تجزیہ دوسرے شعر کا سوال ہے ، اقبال نے ذیلی نظم ’’صحرانوردی‘‘ میں ایک متحرک کارواں کی تصویر کشی کی ،ہے اس نظم میں وہ مسلمانوں کو دوامِ زندگی کے راز ذہن نشیں کرتی ہیں اور تمثیل پیرایۂ بیان میں اس کارواں کی دن بھر ’’گردش پیہم‘‘ کے بعد ان کا پانی کے چشمے کے گرد جمع ہونے کی دیتے ہیں، چونکہ انہوں نے دنیا کے کارواں میں رہ کر ’’دوام زندگی‘‘ کا راز پالیاتھا۔
اقبال نے ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک ‘‘ کی تلمیح سورہ الم نشرح کی آیت 4سے اخذ کی ہے اور پوری آیت کو مصرع بنادیاہے۔ فرمایا گیا’’(اے نبی) اور تمہاری خاطر ہم نے تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کردیا‘‘ اقبال نے اس آیت کو اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’جواب شکوہ‘‘ کے درج ذیل 34ویں بند میں استعمال کیا ہے:
دشت میں، دامن ِ کوہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک دیکھے
سورہ الم نشرح مکی ہے جبکہ کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس شخص (رسول اللہ) کے ساتھ گنتی کے چند آمی ہوں اور وہ بھی شہر مکہ تک محدود ہوں ، اس شخص کے ذکر کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہوسکتا ہے اور اسے ناموری کیسے حاصل ہوسکتی ہے مگر آج دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کی بستی موجود نہ ہو اور اللہ کے ساتھ رسول اللہ کا آوازہ بلند نہ کیا جاتا ہو۔اقبال نے اس آیت کو اس برجستگی سے مصرع میں سمو کر اس بات کو ذہن نشیں کرایا ہے کہ یہ قرآن کی صداقت کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ‘‘اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کرسکتا تھا کہ رفع ذکر اس شان اور اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں بہ یک وقت ہوگا۔حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا ’’میرا رب اور آپ() کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ انہوں نے کہا’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو تمہارا بھی ذکر کیا جائے گا‘‘ ( ابن جریر، ابن ابی حاتم، مسند ابو یعلیٰ، ابن حبان) بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
اقبال نے ’’وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ ‘‘کے فقروں کو جو مختلف آیات کا جز ہے تلمیح کے طور پر اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’لاہور وکراچی‘‘ کے درج ذیل شعر میں استعمال کی:
آہ ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یا دنہیں
حرفِ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إلٰہاًآخَرَ
یہ نظم 3ہی اشعار پر مشتمل ہے اور یہ اس کا آخری شعر ہے۔ اس شعر کا پس منظر اقبال نے اس نظم کے درج ذیل شعر میں ذہن نشیں کرایا ہے:
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور
موت کیا شے ہے ؟فقط عالم معنی کا سفر
’’ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إلٰہاًآخَرَ ‘‘کے معنی ہیں’’اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو‘‘ اس معنی میں یہ فقرہ قرآن مجید کی کئی سورتوں میں وارد ہوا ہے جیسے سورہ المؤمنون،آیت117،الفرقان68، الشعراء213 اور القصص88۔ نفسِ مضمون کی خاطر آخری سورہ کی آیت نقل کی جارہی ہے :
’’اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے، فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو‘‘
قرآن مجید میں سورہ یونس ، آیت51میں ’’ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن ‘‘ کاذکر ہے۔سورہ الانبیاء ، آیت96میں ہے ’’ حَتّٰی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوْجُ وَمَأْجُوْجُ ‘‘ کے الفاظ ہیں جبکہ اسی آیت کا آخری فقرہ ’’ یَنسِلُوْنَ ‘‘ ہے۔دیکھئے اقبال نے ان آیات کی تلمیحات کو کس طرح استعمال کیا ہے:
محنت وسرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے
دیکھئے ہوتا کس کس طرح تمناؤں کا خون
حکمت وتدبیرسے یہ فتنۂ پرآشوب خیز
ٹل نہیں سکتا وَقَدْ کُنتُم بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن
’’کھل گئے‘‘یاجوج وماجوج کے لشکر تمام
چشم ِ عالم دیکھ لے تفسیر حرفِ یَنْسِلُوْنَ
یہ تلمیحات اقبال کے کلام میں ایک بار’’بانگ درا‘‘ کے ’’ظریفانہ‘‘ کی 23ویں نظم میں آئی ہیں۔ اقبال یہ اشعار 1917ء میں روس کے اشتراکی انقلاب سے متاثر ہوکر لکھے گئے ہیں۔
پہلی اصطلاح ’’ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن ‘‘سورہ یاسین کی آیت51سے ماخوذ ہے، یہ مضمون آیت 48سے شروع ہو کر 51 پر ختم ہوتا ہے،فرمایا گیا ’’(یہ منکرین )کہتے ہیں یہ(قیامت کی) دھمکی سچی ہے توپھر آخر کب پوری ہوگی؟کہو میرے اختیار میں خود اپنا نفع وضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، ہر امت کیلئے مہلت کی ایک مدت ہے ، جب یہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو کھڑی بھر کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی، ان سے کہو ، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کاعذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے(تو تم کیا کرسکتے ہو) آخر یہ ایسی کونسی چیز ہے جس کے لئے مجرم جلدی مچائیں‘‘ آگے فرمایا’’ اَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِہٖ ،آٰ لْآنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن ‘‘ اس کے مفہوم کا ترجمہ ہے ’’کیا جب وہ تم پر آپڑی اسی وقت اسے مانو گے؟ اب بچنا چاہتے ہو، حالانکہ تم خود ہی اس کیلئے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے‘‘
دوسری تلمیح ’’ یَنْسِلُوْنَ ‘‘ ہے جو دوسورتوں میں میں وارد ہوئی ہے جن میں درج ذیل پہلی سورہ کی آیات میں ’’یاجوج وماجوج‘‘ کے ’’کھل گئے‘‘ کی بات وارد ہوئی ہے اور اسی لئے اقبال نے ’’کھل گئے‘‘ کو واوین میں دیا ہے۔ آیت میں ’’ فُتِحَتْ ‘‘ آیا ہے، فرمایا گیا ’’اور ممکن نہیں کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا وہ پھر پلٹ سکے، یہاں تک کہ یاجوج وماجوج کھول دیئے جائیںاور ہر بلندی سے وہ ’’یَنْسِلُوْنَ ‘‘ نکل پڑیں گے‘‘
دوسرا مقام جہاں ’’ یَنْسِلُوْنَ ‘‘ کا ذکر ہوا وہ سورہ یاسین کی آیت51 ہے، فرمایا گیا ’’پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک (منکرین) اپنے رب کے حضور پیش ہونے کیلئے اپنی قبروں سے ’’ یَنسِلُونَ ‘‘ یعنی نکل پڑیں گے‘‘
اس طرح ’’ وَقَدْ کُنتُم بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن ‘‘کے معنی ہوئے ’’حالانکہ تم خود ہی اس قیامت کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے ‘‘ اور ’’ یَنسِلُونَ ‘‘ کے معنی ہوئے ’’نکل پڑیں گے‘‘ یہ ساری باتیں اقبال نے سرمایہ داروں کو کہی ہیں جو محنت یعنی مزدور طبقہ کو جلدی کچل ڈا لنا چاہتے تھے مگر ہوا یہ کہ 1917ء میں جب روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور وہاں مزدوروں کی حکومت قائم ہوگئی جن کو اقبال نے یاجوج وماجوج کا نام دیا ہے ، جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کا خاتمہ کرڈالا۔اب ان معنوں کے پس منظر میں قارئین روس کے اشتراکی انقلاب کی وجہ سے سرمایہ ومحنت کی صف آرائیوں اور ان کے نتائج کا اندازہ لگائیں۔
یاجوج وماجوج کا ذکر قرآن مجید میں صرف 2مقامات پر وارد ہوا ہے۔ پہلی سورہ الکہف کی آیت 94میں اور دوسری بار سورہ الانبیاء کی آیت96میں۔
قرآن مجید میں دنیا کو ’’ مَتَاعُ الْغُرُوْر‘‘کہاگیا ہے۔ اس کے اصطلاحی معنی ہیں ’’ظاہر فریب چیز‘‘ اس تلمیح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک شعر ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’لاالہ الا اللہ‘‘ میں ہے:
کیا ہے تونے متاع ِغرور کا سودا
فریب سودوزیاں لاالہ الا اللہ
اقبال نے یہ تلمیح درج ذیل آیات سے اخذ کی ہے:
’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو، کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کیا جائے،’’وَماالْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْر‘‘ رہی یہ دنیاتو محض ظاہر فریب چیز ہے‘‘ (آل عمران185)
ایک اور مقام پر بھی دنیا کیلئے یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے، فرمایا گیا’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کرکاشت کار خوش ہوگئے، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی، پھر بھس بن کر رہ جاتی ہے ، اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اوراس کی خوشنودی ہے’’وَماالْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْر‘‘دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں ‘‘ (الحدید20)
اقبال نے اس تلمیح کو لاکر مسلمانوں کویہ بات ذہن نشیں کرائی ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں جو نتائج رونما ہوتے ہیں انہیں اخروی نتائج سمجھ نہ بیٹھنا اور انہیں حق وباطل اور فلاح وخسران کے فیصلے کا مدار مان لینا درحقیقت فریب سود وزیاں میں مبتلا ہوجانا ہے۔ اعتبار اخروی نتائج کا ہونا چاہئے جو اسے روز حشر آتش دوزخ سے بچائے۔
(جاری ہے)