کوئی بھی چھوٹا آدمی کوئی بھی بڑا کام کرسکتا ہے۔بس تھوڑی سی دیوانگی چاہئے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ دنیا چند دیوانوں نے بنائی ہے ہم جیسے اربوں عام لوگوں کیلئے۔نمونے کے طور پر چند دیوانوں کی مثالیں حاضر ہیں۔
یوناس سالک:
یہ بھائی صاحب 1914 میں نیویارک کے ایک غریب یہودی تارکِ وطن کے ہاں پیدا ہوئے۔والدین انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر سالک نے ڈاکٹری کے منافع پر طبی تحقیق کے گھاٹے کا انتخاب کیا اور تحقیق میں بھی ایک مشکل ترین شعبے یعنی پولیو ویکسین بنانے کی مہم جوئی کو منتخب کیا۔
1952ء میں صرف امریکہ میں58 ہزار بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ان میں سے3145 مرگئے اور 21 ہزار سے زائد اپاہج ہوگئے۔اگر1952میں امریکہ جیسے ملک کی یہ حالت تھی تو اس سے آپ ترقی پذیر دنیا کے حالات کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔یہاں یہ بتانا بے جا نا ہوگا کہ دنیا میں پولیو کا سب سے مشہور مریض4 مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے والا فرینکلن ڈی روزویلٹ تھا۔
بہرحال1955میں یوناس سالک کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ پولیو ویکسین بنانے میں کامیاب ہوگئے۔آج انکی ویکسین کی بدولت 2 ممالک ( پاکستان ، افغانستان ) کے علاوہ باقی دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔کہاں1988ء تک دنیا بھر میں ساڑھے3 لاکھ افراد پولیو کے سبب ہر سال اپاہج ہورہے تھے اور کہاں آج یہ کیسز 200سے بھی کم رہ گئے۔
یوناس سالک کا انتقال1995ء میں ہوا۔کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس ویکسین کو اپنے نام سے پیٹنٹ کیوں نہیں کرایا۔سالک نے الٹا سوال کر دیا کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کرواسکتے ہیں ؟ اگر سالک اس ویکسین کو پیٹنٹ کروا لیتے تو کم ازکم7 ارب ڈالر کی رائلٹی کے مالک ہوتے۔
دشرتھ مانجی:
دشرتھ1934ء میں ہندوستانی ریاست بہار کے ضلع گیا کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں گہلور میں پیدا ہوئے۔بالکل ان پڑھ مزدور تھے۔1960ء کے ایک دن دشرتھ کی بیوی پلگن دیوی صرف اس لئے مرگئی کہ قریب ترین اسپتال گاؤں سے70 میل دور تھا۔ کیونکہ پہاڑ درمیان میں حائل تھا۔
دشرتھ جب بیوی کے سوگ سے باہر نکلا تو اس نے کدال اٹھائی اور اس پہاڑ کو کاٹنا شروع کردیا جو اگر بیچ میں نہ ہوتا تو اس کی بیوی کی جان بچ سکتی تھی۔لوگوں نے دشرتھ کا خوب مذاق اڑایا اور علاقے میں وہ دشرتھ پاگل کے نام سے مشہور ہوگیامگر دشرتھ نے گویا کان بند کرلئے اور 24 برس تک تنِ تنہا پہاڑ کاٹنے میں لگا رہا۔
1984ء میں دشرتھ نے پہاڑ کو 2حصوں میں تقسیم کرکے 360 فٹ لمبا اور30 فٹ چوڑا راستہ نکال دیا جس کے سبب قریب ترین قصبے وزیر گنج کا راستہ 55کلومیٹر سے گھٹ کے 15 کلو میٹر رہ گیا۔تب سے اب تک دشرتھ کے گاؤں کی کوئی عورت محض اسپتال نہ پہنچنے کے سبب نہیں مری۔دشرتھ کا2007ء میں انتقال ہوا اور ریاستی حکومت نے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دشرتھ کی آخری رسومات ادا کیں۔تب سے اب تک دشرتھ کی کہانی پر3 فلمیں بن چکی ہیں۔
پروین سعید:
پروین نے 80 کے عشرے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی بہبود سے ایم اے کیا اور ایک فلاحی ادارے میں ملازمت شروع کر د ی۔پھر ایک دن انہیں خیال آیا کہ ہمیں تو 3 وقت کی روٹی میسر ہے لیکن جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل میسر ہے، ان کروڑوں لوگوں کا کیا قصور۔انہوں نے اپنا دکھ اپنے شوہر خالد سعید پر ظاہر کیا اور پھر دونوں نے مل کے کراچی کے ایک غریب علاقے خدا کی بستی میں کھانا گھر کی بنیاد رکھی حالانکہ وہ دونوں یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ اگر ہماری کوششوں سے چند لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے تو اسکا کیا فائدہ ہوگا ، کروڑوں لو گ تو پھر بھی بھوکے رہیں گے مگر دونوں میاں بیوی اس سوچ کوقطعاً خاطر میں نہ لائے اور اپنی تھوڑی بہت ذاتی پونجی کھانا گھر پے لگا دی۔
شروع کے چند برسوں تک ایک روپے میں سالن کی پلیٹ اور 2 روٹی دیتے رہے پھر گرانی کے سبب 3 روپے کا کھانا کردیا حالانکہ فی زمانہ سالن کی پلیٹ اور روٹی پر اصل لاگت20 روپے آتی ہے۔پروین کہتی ہیں کہ اب اتنے مخیر لوگ ہماری مدد کررہے ہیں کہ ہم مفت کھانا بھی دے سکتے ہیں لیکن علامتی قیمت اسلئے رکھی ہے تاکہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور اسے اطمینان رہے کہ وہ کھانا خرید کے کھا رہا ہے۔
اکبر مخمور:
ڈیرہ غازی خان کے کالج چوک میں سرائیکستان ٹائر ورکس کے نام سے ایک ورکشاپ ہے جس کے مالک اکبر مخمور ہیں۔ 1984ء میں سعودی عرب میں دورانِ ملازمت انہیں سرائیکی اردو ڈِکشنری کا خیال آیا،پھر وہ اس خیال کے ساتھ وطن آگئے اور ٹائر بیچنے کے ساتھ ساتھ ڈکشنری مرتب کرنے کا کام جاری رکھا۔یوں 30 برس کی محنت کے بعد4 ہزار صفحات پر مشتمل ڈکشنری تیار ہوگئی۔اس وقت بازار میں جو سب سے ضخیم سرائیکی اردو ڈکشنری میسر ہے اس میں 36 ہزار الفاظ ہیں لیکن اکبر مخمور کی ڈکشنری میں ایک لاکھ 15 ہزار سرائیکی الفاظ اور محاورے موجود ہیں۔
عقیلہ ناز:
عقیلہ پنجاب میں خواتین کسانوں کی تنظیم پیزنٹ ویمن سوسائٹی کی سربراہ ہیں اور گزشتہ16 برس سے کسان حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ عقیلہ کہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں میں آدھی تعداد عورتوں کی ہے اور جب تک زمین پر عورت کے مالکانہ حقوق بھی مردوں کے مالکانہ حقوق کے برابر تسلیم نہیں کئے جاتے کسان عورت خودمختار نہیں ہوسکتی۔
عقیلہ کو خود بھی بے زمینی کے کرب اور ریاستی و غیرریاستی دہرے استحصال کا اندازہ ہے۔ انکے باپ دادا 1880ء سے جس زمین پر کام کرتے آئے اس کے مالکانہ حقوق کے انتظار میں کئی نسلیں کھپ گئیں۔عقیلہ چاہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں کی اگلی نسل اس کرب سے نہ گزرے اسی لئے وہ اپنا آج، کل پر قربان کر رہی ہیں۔