Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان کا وجود ، قابل غور و تدبر

   
 خود انسان کا اپنا وجود قدرت کی بڑی نشانی ہے ، اپنے وجود پر غور و فکر کرنے سے انسان خالق اورمعبود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے
* * *مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ* * *
  

خالق و حاکم ہونا اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے خاص ہے۔ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی معبود حقیقی ہے۔ اس کائنات کی عظیم مخلوقات ہی نہیں بلکہ اس میں موجود ذرہ ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنیوالا ہے اور وہ بڑی زبردست طاقت و قوت کا مالک ہے۔وہ تنہا معبود حقیقی ہے ، اسکا کوئی شریک و ساجھی نہیں ، اسی نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات میں شرف و تکریم سے نوازا ۔ ارشاد ربانی ہے:
     ’’ اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی و تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ ‘‘ (الاسراء70)۔
    یہ فضیلت و شرف کئی اعتبار سے ہے ، شکل و صورت کے اعتبار سے بھی کہ جو بہترین ہیئت اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی وہ دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ۔ چند چیزوں کی قسم کھاکر اﷲ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی :
    ۰ یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا( التین 4)۔
    ۰ اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا ؟ جس (رب نے ) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا ، پھر ( درست اور) برابر بنایا ، جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا(الانفطار 8-6)۔
     انسانی شکل و صورت ، قد و قامت ، اعضاء و جوارح ، انکے درمیان مناسبت اور انکی خوبیوں پر غور کیاجائے ،پھر اس کائنات میں مو جو د کسی بھی جاندار مخلوق سے اسکا موازنہ کیا جائے تو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دیگر مخلوقات میں سب سے افضل و برتر ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔انسان کے اشرف ہونے کا ایک اہم راز اسکے دیکھنے ،سننے کی صلاحیتوں کیساتھ اسکا صاحب عقل اور فہم و ادراک کا حا مل ہونا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی، نیز اچھے برے کے درمیان تمیز کرنے پھر اپنے ارادہ سے کسی کو اختیار کر نے کی وہ قوت و صلاحیت دی جو کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ۔ اسی عقل و شعور پر انسان کو مکلف بنایا کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر تے ہوئے من مانی زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچان کر اسی کی عبادت کرے، اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرے ، ارشاد ربانی ہے :
    ’’ اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اسلئے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔ ‘‘ ( الذاریات56)۔
    انبیائے کرام ؑ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اﷲ کی مخلوقات میں غور و تدبر معرفت ربانی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے ، جو لوگ تعصب ، ہٹ دھرمی اور ضد کے بغیر سنجیدگی اور تلاش حق کی جستجو کے جذبے سے اﷲتعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے ہیں وہ راہ حق پاہی لیتے ہیں ۔ انسان جب اشرف المخلوقات ہے تو جن چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ان میں خود انسان کا اپنا وجود بھی شامل ہے ، ارشاد باری تعالیٰ  ہے:
      ’’ کیا یہ ( بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ) خود بخود پیدا ہو گئے ہیں ؟ یا یہ خود ( اپنے آپ کو ) پیدا کرنے والے ہیں ؟ کیا انھوںنے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ ( حقیقت یہ ہے کہ ) یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ‘‘ ( الطور36-35) ۔
     ’’اور یقین والوں کیلئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔‘‘ (الذاریات 21-20 ) ۔
    اس کائنات میں قدرت الٰہی کی بے شمار نشانیاں ہیں۔ انہی میں خود انسان کا اپنا وجود قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے ، جو شخص خود اپنے وجود پر غور و فکر کرے وہ یقینا اپنے خالق اورمعبود حقیقی کی معرفت حاصل کرسکتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ’’ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائیگا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ‘‘ ( حٓم السجدۃ53) ۔
    آفاق وانفس کی آیات ( نشانیوں ) سے مراد قدرت الٰہی کی وہ نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنیوالوں کو اپنے وجود اور اپنے وجود سے باہر دنیا کی ہر ہر چیز میں نظر آتی ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور اسکی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔’’ آفاق‘‘ کناروں کو کہتے ہیں۔زمین و آسمان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک قدرت کی بیشمار نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔ آیاتِ انفس ( انسان کے وجود میں قدرت کی نشانیوں ) کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے ۔ انسان کی پیدائش  جسمِ انسانی کے اعضاء و جوارح ، دل و دماغ جیسی نازک مشینیں اور انکی کارکردگی پر غور کیا جائے تو خالق حقیقی کی عظیم قدرت پر انسانی عقل حیران رہ جائے ۔ طب کے میدان میں سائنس نے جو ترقی کی ہے وہ ’’ آیاتِ انفس ‘‘ کی واضح مثال ہے ۔ آفاق و انفس کی نشانیوں کا انکشاف چونکہ انسان پر دفعتاً نہیں ہوتا بلکہ غور و فکر کے نتیجے میں بتدریج حقائق سے پردہ اُٹھتا ہے اس لئے آیتِ بالا میں یہ اُسلوب اختیار کیا گیا کہ ہم عنقریب اپنی نشانیاں انہیں آفاق وانفس میں دکھائینگے ۔الغرض قرآن میں انسان کو قدرت کی جن نشانیوں پر خصوصیت سے غور و فکر کی دعوت دی گئی اس میں خود انسان کا اپنا وجود بھی شامل ہے ۔ غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے کائنات میں موجود قدرت کی چند نشانیوں کا تذکرہ آیا ہے ۔وہاں ابتداء تخلیق انسان ہی کے ذکر سے ہے ، ارشاد ربانی ہے: ’’ اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو۔ ‘‘ ( الروم 20)۔
    نادان انسان مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کو ناممکن اور محال تصور کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے جواب میں بار ہا اسے یاد دلایا کہ وہ اپنے آپ کو کیوں بھول جاتا ہے ؟ کیا ایک وقت ایسا نہ تھا کہ اس کا کوئی وجود اس کائنات میں نہ تھا ، ہم نے اسے وجود بخشا اور اپنی قدرت سے ٹھیک ٹھاک درست انسان بنایا تو جو پروردگار پہلی مرتبہ وجود بخش سکتا ہے اور معدوم سے موجود کرسکتا ہے اس کیلئے دوبارہ پیدا کرنا کونسا مشکل کام ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ۰ انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا ؟ کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا (مریم67-66) ۔
    ۰  یقینا انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت گزرا جبکہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ، بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کیلئے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا ، ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا (الدہر3-1)۔
    اﷲ ہی ساری کائنات کا اور مخلوقات میں سب سے اشرف مخلوق ، بنی نوع انسان کا خالق اور وہی معبود حقیقی ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس سے بڑی ناشکری اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر بے جان اور بے اختیار چیزوں کے آگے اپنا ماتھا ٹیکے ؟ توحید اور عبادت رب کی دعوت دیتے ہوئے ساری انسانیت سے اﷲ تعالیٰ کا خطاب ہے:
     ’’ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی ہی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ‘‘ ( البقرہ21)۔
    انسان کی تخلیق قدرت الٰہی کی عظیم نشانی ہے چنانچہ جابجا قرآن پاک میں انسان کو خود اپنی پیدائش اور اپنے وجود کی ابتداو انتہا اور اس دوران پیش آنے والے مختلف احوال اورتبدیلیوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اﷲ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے۔‘‘ ( یعنی رحم مادر میں نطفہ سے خون ، خون سے گوشت کا لوتھڑا پھر ہڈیوں کی بناوٹ وغیرہ مختلف ادوار سے گزار کر اس دنیا میں وجود بخشا ) ۔
    رحم مادر میں ہونیوالی تبدیلی اور انسان کی تخلیق کا تذکرہ سورۃالمومنون ،آیت 12تا16میں اس تفصیل کے ساتھ آیا ہے: 
     ’’ یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ، پھر اسے نطفہ بناکر محفوظ جگہ میں قرار دیدیا ( یعنی رحم مادر میں جہاں بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے9 ماہ حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے ) پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا ، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا ، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنادیں ، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنادیا پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا ، برکتوں والا ہے وہ اﷲ جو سب سے بہتر پیدا کرنیوالا ہے ، اس کے بعد پھر تم سب یقینا مرجانے والے ہو ، پھر قیامت کے دن بلا شبہ تم سب اُٹھائے جاؤگے۔ ‘‘
    ’’ دوسری بناوٹ ‘‘ سے مراد وہ خاص شکل و صورت ہے جو نومولود ( رحم مادر میں 9ماہ کے درمیان مختلف تبدیلیوں کے بعد ) اس دنیا میں لے کر آتا ہے جسے قرآن میں دوسری جگہ ’’ احسن تقویم ‘‘ کہا گیا کہ ’’ یقینا ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ‘‘ (التین)،ظاہری اعتبار سے خوبصورت انسانی پیکر جہاں قدرت کی بڑی نشانی ہے وہیں اس پیکرِ انسانی کی معنوی خوبیاں اور صلاحیتیں کچھ کم نہیں جو صرف اور صرف اﷲ ہی کی عطا کردہ ہیں اور غور و فکر کرنے والوں کیلئے اس میں قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ رحم مادر میں تخلیق انسانی کے مراحل کو ظاہر بین نگاہ اگر نہ سمجھ سکے تو اتنا تو ہر انسان جانتا ہے کہ اس کا وجود ایک قطرہ ٔناپاک ہی سے ہے جو مرد و زن کے اختلاط کے بعد رحم مادر میں قرار پاتا ہے ، پھر 9ماہ بعد ایک بہترین شکل و صورت میں اس دنیائے آب و گل میں وارد ہوتا ہے تو کیا اس قطرۂ آب کو بہترین انسانی پیکر دینے والا اﷲ کے سوا کوئی اور ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اچھا یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو ، کیا اس کا ( انسان ) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں ؟ ‘‘ ( الواقعہ59-58)۔
    اوپر ذکر کردہ سورۃ المومنون کی آیت شریفہ میں تخلیقِ انسانی کے7 دَور ذکر کئے گئے۔ سب سے پہلے مٹی کا خلاصہ ، پھر نطفہ ، پھر علقہ (جما ہوا خون ) پھر مضغہ ( گوشت کا لوتھڑا ) پھر عظام (ہڈیوں کی بناو ٹ ) پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھانا ، پھر خاص شکل و صورت اور انسانی پیکر میں روح انسانی سے مربوط ہوکر تخلیق کی تکمیل اور اس دنیائے فانی میں آمد ۔ ایک حدیث میں یہ حقیقت بیان ہوئی کہ رحم مادر میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقلی 40،40دن میں ہوتی ہے۔ متفق علیہ حدیث میں رسول کریم کا ارشاد گرامی ہے:
     ’’ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں 40دن نطفہ کی شکل میں رہتا ہے ، پھر اتنی ہی مدت علقہ ( جما ہوا خون ) پھر اتنی ہی مدت مضغہ ( گوشت کا لوتھڑا ) پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے 4 کلمات ( لکھنے ) کا حکم دیا جاتا ہے،(یعنی) اس کا رزق ، اس کی عمر ، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت ۔‘‘
    تخلیقِ انسان کا پہلا مرحلہ مٹی کا خلاصہ بیان کیا گیا ، دوسرے درجہ میں نطفہ، پھر اس نطفہ میں مختلف تبدیلیاں ہوتی ہیں جو ظاہری نگا ہو ں سے اوجھل رحم مادر میں ہوتی ہیں ، قرآن پاک میں بعض جگہ تخلیق انسانی کی نسبت مٹی کی طرف کی گئی کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ارشاد ربانی ہے:
    *اور اسکی نشانیوں میں یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر تم انسان بن کر پھیل رہے ہو۔ ‘‘(الروم20)۔
    * اس کے تخلیق انسانی کی ابتداء مٹی سے کی۔‘‘(السجدہ7)۔
     اسی طرح اور بھی کئی آیات میں یہ بیان ہے۔ قرآن میں بعض مقامات پر تخلیقِ انسانی کی نسبت براہ راست نطفہ کی طرف کی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ۰ اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑا لو بن بیٹھا ( النحل 4)۔
    ۰ کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے (یعنی منی سے ) پیدا نہیں کیا ؟ پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں رکھا ایک مقررہ وقت تک پھر ہم نے اندازہ کیا اور ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں (المرسلات 23-20) ۔
    یعنی رحم مادر میں جسمانی اعضاء کی ترکیب اورساخت صحیح اور درست اندازہ سے کی کہ اس میں کوئی نقص اور کجی نہیں۔
    بادی النظر میں انسان کی اصل ، نطفہ یعنی اس حقیر پانی کا ایک قطرہ ہی ہے جو مرد و زن کے اختلاط سے خارج ہوکر تقدیر الٰہی سے ایک محفوظ جگہ ( رحم مادر ) میں قرار پاتا ہے ۔ تخلیق انسانی کی نسبت مٹی کی طرف 2 اعتبار سے ہے ، ایک تو اسلئے کہ ابوالبشر حضرت آدم ؑکی تخلیق خالص مٹی سے ہوئی جیساکہ قرآن پاک میں کئی جگہ تخلیقِ آدم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی گئی :
    * ( وہ وقت یاد کرو ) جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں ( یعنی مٹی سے انسانی پیکر بنالوں اور اس کے اجزاء درست کرلوں ) پھر اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑو( صٓ72-71)۔
    * یقینا ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک انسان کو سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا ( الحجر 29-26)۔
    مٹی سے آدم کی پیدائش کے بعد انہی سے ان کا جوڑا اماں حواء کو پیدا کیا گیا ۔ حضرت عبد اﷲ بن عباسؓسے مروی ہے کہ حضرت حواء حضرتؑ سے پیدا ہوئیں۔ احادیث میں رسول کریم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ عورت بائیں پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ الغرض آدم و حوا  ؑکی پیدائش کے بعد مرد و زن کے اختلاط سے نسل انسانی کا سلسلہ جاری کردیا گیا۔ سورہ النساء کی پہلی ہی آیت میں یہ حقیقت اس طرح بیان ہوئی:
     ’’ اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اورپھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں۔ ‘‘
    سورۃ الاعراف آیت189 ، سورۃ الزمر آیت6 میں بھی اسی حقیقت کا بیان ہے ۔ سورۃ السجدہ،آیت8,7میں ارشاد ربانی ہے:     ’’ جس نے ( اﷲ نے ) نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔ ‘‘
    الغرض انسان کی پیدائش نطفہ سے بھی ہونے کے باوجود ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش چونکہ مٹی سے ہوئی اور ان ہی سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا اس لئے ہر انسان کی پیدائش اپنی اصل اور ابتداء کے لحاظ سے مٹی ہی سے ہوئی ۔
    دوسرے اس اعتبار سے ہر انسان کی پیدائش مٹی سے ہے کہ نطفہ ، غذا سے بنتا ہے بلکہ اسی کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اور انسان جو کچھ کھاتا پیتا ہے اس کی ساری غذا مٹی سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس طرح انسانی وجود کی بنیاد بننے والے قطرۂ آب ( نطفہ ) کا مزید تجزیہ کیا جائے تو اسکی جڑیں مٹی ہی سے جاملتی ہیں اسلئے ہر انسان کی پیدائش میں اصل عنصر مٹی ہی کا ہے۔اسی نسبت سے ہر انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
     ’’ اسی ( زمین ) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائینگے اوراسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کرینگے ‘‘ (طٰہٰ55 ) ۔
    الغرض تخلیقِ انسانی کا پہلا مرحلہ مٹی کا خلاصہ اور جوہر ہے اور دوسرا مرحلہ قطرۂ آب یعنی نطفہ ہے ۔
 

شیئر: