ڈاکٹر امل عبداللہ الطعیمی ۔ الیوم
اتوار 24دسمبر 2017ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے عربی جریدے” الیوم“کے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
بعض لوگ خدشات ظاہر کررہے ہیں کہ چھوٹے بڑے عرب شہری ضرورت اور بلا ضرورت انگریزی زبان منہ ٹیڑھا کرکے بولنے کے شوق اور دیگر زبانیں استعمال کرکے عربی زبان کے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں۔سعودی شہری عربی اچھی نہ جاننے والے غیر ملکیوں کیساتھ گفت و شنید کے موقع پر عربی توڑ مروڑ کر بول رہے ہیں۔اس سے بھی عربی زبان کے بنیادی ڈھانچے اور اسکے حسن کو خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ غیر ملکیوں کے ساتھ افہام و تفہیم کیلئے عربی زبان مسخ کرنے کے ذمہ دار ہم ہیں کوئی اور نہیں۔ ہم زبان آسان بنانے کے بہانے توڑ مروڑ کر بات چیت کرتے ہیں اور پھر الزام غیر ملکیوں پر لگا دیتے ہیں کہ عربی یہی لوگ بربادکررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بگاڑ کے ذمہ دار ہم ہیں ۔ مثال کے طور پر جب ہم کسی غیر ملکی سے”لا علم لدی یالا اعرف“کے بجائے کہتے ہیں کہ ”مافیہ معلوم“ تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم غیر ملکی کو غلط زبان سکھا رہے ہیں۔ یہی غلط بول غیر ملکیوں میں رائج ہوچکے ہیں اور ایک دوسرے سے گفت و شنید کے لئے یہی بول استعمال کئے جانے لگے ہیں۔
عرب شہری نہ صرف یہ کہ غیر ملکیوں سے گفت و شنید کے موقع پر غلط تلفظ استعمال کررہے ہیں بلکہ غلط لسانی ترکیبیں اختیار کررہے ہیں۔اس سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر ہم لوگ غلط تعبیریں اور غلط جملے بھی دھڑا دھڑ استعمال کئے جارہے ہیں۔یہ کام اہل زبان کررہے ہیں۔بعض لوگ نامناسب مفردات بھی روزمرہ کی زبان میں رائج کرنے کے کوشاں نظر آرہے ہیں۔اسکی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ جنگ یا کھیل یا کسی بھی فیلڈ میں منفرد کامیابی اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے انسان کو صحیح عربی زبان میں”شجاع “ اور ”مقدام“کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان دنوں خوبصورت جوڑے، شاندار خوراک یا منفرد مشروب کی صفت کے طور پر بھی اسی قسم کی تعبیریں استعمال کی جارہی ہیں جو سراسر غلط ہیں۔ مثالیں بے شمار ہیں۔ایک صفت کیلئے مختص لفظ کا غیر موزوں جگہ پر استعمال پھیلتا چلا جارہا ہے۔ تحریر اور گفتگو کے دوران غلطیوں کی بھرمار ہورہی ہے۔ بعض مشہور لوگ بھیانک غلطیاں کررہے ہیں۔ سنا جاتا ہے کہ وہ ”تحفے“ کی جگہ ”توحفہ “بولنے او رلکھنے لگے ہیں۔ یہ عربی زبان کے خلاف مجرمانہ عمل ہے۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ عربی زبان کی شکل و ہیئت بگاڑنے کا دائرہ خارجی زبان کے عربی پر اثرات تک محدود نہیں رہا ۔ ہم عربی زبان کے بگاڑ کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف تو ہم غلط عربی زبان استعمال کرنے کی غلطی کرتے ہیں تو دوسری جانب غلط زبان کے استعمال کو نظر انداز کرتے ہیںلہذا ہر عرب شہری کا فرض ہے کہ وہ جب بھی کسی کو غلط طریقے سے یا غلط زبان بولتے ہوئے سنے تو پہلی فرصت میں اسکی اصلاح کا اہتمام کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭