Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب 5برس بعد

سعودی اخبارالشرق الاوسط میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان ’’سعودی عرب 5برس بعد‘‘کا ترجمہ پیش خدمت ہے
سعودی عرب 5برس بعد
سلمان الدوسری
    3برس سے سعودی عرب میں بینظیر تبدیلی آرہی ہے۔ حیران کن اقتصادی اصلاحات، متوقع سماجی اصلاحات، ریاستی اداروں اور اقتدار کے طور طریقوں کی تجدید۔ملکی قوانین و ضوابط کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی تحریک دیکھی جارہی ہے۔انتہاپسندی سے آہنی پنجے سے نمٹا جارہا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ کئی منصوبوں کے خواب دیکھے جاتے تھے جو اب زمینی حقیقت بن چکے ہیں۔ نیا سعودی قومی بجٹ ہر ایک کو خوشگوار خوشی دے گیا۔ اعلان کیا گیا کہ 2018بجٹ کے اخراجات متعدد ذرائع سے پورے کئے جائیں گے ،محض تیل پر انحصار نہیں ہوگا۔ 50فیصد فنڈنگ تیل آمدنی،30فیصد تیل کے ماسوا ذرائع، 12فیصد قومی قرضے اور 8فیصد سرکاری اثاثوں سے پورے کئے جائیں گے۔
     سعودی عرب نے تیل پر انحصار 50فیصد تک کم کرلیا ہے۔ سعودی بجٹ کا 90فیصد انحصار تیل آمدنی پر رہا ہے۔یہ کارنامہ 3برس سے بھی کم عرصے کے اندر حاصل کرلیا گیا۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد آرہی ہے کہ 25اپریل 2016کو سعودی وژن 2030کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ذریعے عظیم الشان اقتصادی منصوبے کی جھلکیاں دکھائی گئیں۔ واضح کیا گیا کہ اس کا مقصد سعودی عرب کی اسلامی اور عرب حیثیت اور پوزیشن کو راسخ کرنا ہے۔ رہنما سرمایہ کار طاقت کے طور پر اجاگر کرنا ہے۔ 3براعظموں کو جوڑنے والے محور کے طور پر سعودی عرب کی پہچان کو نمایاں کرنا ہے۔ ابھی سعودی وژن کے اجراء کو صرف ڈیڑھ برس گزرا ہے کہ ہم انقلابی تبدیلی دیکھنے لگے ہیں۔ایسے تمام حالات جو زندگی کے پہیئے کو آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ تھے خزاں کے پتوں کی طرح صاف ہوگئے ہیں۔ دور سے دیکھنے والوں کو گمان ہوگاکہ گزشتہ 3برسوں کے دوران جو کچھ ہوا غالباً اس کیلئے 30برس درکار تھے۔
    سعودی عرب میں اندرون ملک حیران کن تبدیلیاں تغیرات کے دریا کا ایک کنارہ ہے ۔ اس کا دوسرا کنارہ خارجہ پالیسی ہے ۔ ادھر ایک نظر ڈالنے سے کافی کچھ ہمارے سامنے آرہا ہے۔یہاں میںایک سوال دہرانا چاہونگا جو بار بار کیا جارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر سعودی عرب ایک ہی وقت میں انتہائی خطرناک اور حساس معاملات کی فائلیں کیوں کھول رہا ہے؟یمن میں جنگ، قطر کے ساتھ تعلقات کا بائیکاٹ اور ایرانی ملیشیاؤں کے ساتھ خطرناک محاذآرائی بیک وقت کھلے ہوئے ہیں۔سوال بیجانہیں ۔ جواب یہ ہے کہ ان محاذوں میں سے کوئی ایک بھی کھولنے کیلئے سعودی عرب نے کوئی پیشرفت نہیں کی۔یہ سارے بحران متعلقہ ممالک کی تخلیق ہیں اور 2عشرے کے زیادہ عرصے سے سعودی عرب کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔ سعودی عرب نے اس حوالے سے بس اتنا کیا کہ وہ کھل کر میدان میں آگیا اور اس نے ان سارے بحرانوں کو ختم کرنے کیلئے اپنی اسکیموں پر عملدرآمد شروع کردیا۔ سعودی عرب کے سامنے 2راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ان بحرانوں کو سعودی عرب کے وجود کو چٹ کرنے پر خاموشی اختیار کررکھے ، دیمک کو اپنا کام کرنے دے اور دوسرا راستہ یہ تھا تنگ آمد بجنگ آمد والے اصول پر عمل کرے۔کیا کوئی شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر حوثیوں کو یمن میں اپنا بغاوتی مشن مکمل کرنے کیلئے فری ہینڈ دیدیا جاتا تو صورتحال کیا ہوتی؟ اگر ایران کو سعودی عر ب اور خلیجی ممالک کی سرحدوں پر توسیع پسندانہ منصوبہ مکمل کرنے سے نہ روکا جاتا منظر نامہ کیا بنتا؟ یاقطر کو خلیجی ممالک کیخلاف سازشیں جاری رکھنے اور برادر ممالک کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے پر خاموشی اختیار کرلی جاتی تو حالات کیا بنتے؟یاسعودی عرب میں حزب اللہ کی دہشتگردی سے چشم پوشی اختیار کی جاتی تو دہشتگردی کے پنجے کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے؟
    یہ سارے بحران برسہا برس سے چل رہے تھے۔ سعودی قیادت، حکمت ، فراست اور معقولیت سے کام لیکر حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، کامیابی نہیں ملی۔ دشمنوں نے جنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخر کار مملکت نے ان بحرانوں کو ختم کرنے کیلئے باگ ڈور دشمنوں کے بجائے اپنے ہاتھ میں لے لی۔
    اہم یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے عوام کی تائید و حمایت کے بل پر مستقبل کی طرف جست لگا رہا ہے ۔ آئندہ 5برس بعد سب لوگ دیکھیں گے اور یاد کرینگے کہ سعودی عرب نے اپنا ہدف کیسے حاصل کرلیااور وہ سب کچھ کیسے لے لیا جس سے بعض لوگ خوفزدہ اور دیگر اسے ناممکن قرار دے رہے تھے۔

شیئر: