مریم نواز اپنے والد کیلئےکسی گوہر نایاب سے کم نہیں
بارے ان کا بھی کچھ بیان ہوجائے۔ شعراء حضرات کا سہارا لیا توبات دور نکل جائیگی۔ میں خیالات کی دنیا میں جانا نہیں چاہتا ۔ طنز و مزاح ہر شخص کی فطرت میں ہوتا ہے۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ مشتاق یوسفی اور انور مقصود جیسے لوگ بار بار پیدا نہیںہوتے۔ جو مزاح وہ لکھ گئے اور جس طرح کے طنزیہ جملوں سے انہوں نے معاشرہ کی بدنصیبی اور ناکامیوں کی طرف قوم کی توجہ دلائی وہ ان ہی کا خاصّہ ہے۔ شاعروں اور ادیبوں کی کمی نہیں لیکن بلندی و سرفرازی صرف چند لوگوں کو میسر آتی ہے ۔آج اگر جوش، حمایت علی شاعر، فیض اور فراز کا ہم پلہ پورے ہندوستان و پاکستان میں پیدا نہیں ہوسکا تو گھبرانے کی بات نہیں ۔ قدرت خود ہی نگینہ فضاؤں میں اچھال دیتی ہے۔ خواتین شعراء میں پروین شاکر کے بعد قحط النسا ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ ایک دبلی پتلی لڑکی حسیب عنبر حسیب ضرور تک و دو میں لگی ہوئی ہے ۔ سحر انصاری کی یہ صاحبزادی امید ہے ایک روز شہرت کی بلندیاں چھولیں گی، لیکن ابھی وقت ہے۔ میں نے شعروسخن کے حوالے سے آج کا کالم اس لئے شروع کیا کہ چند دردناک مگر مضحکہ خیز حماقتیںآپ کے گوش گزار کرسکوں۔
چلیں شروع ہی ایک شعر سے کرتے ہیں جو میرے دوست طاہر حنفی کے ذہن کی اختراع ہے۔ ایک اعلیٰ عہدے پر عرصہ دراز تک رہے اور 3,2 سال پہلے ہی ریٹائر ہوگئے۔ لیکن کمال کا اسلوب ہے۔الفاظ کا چناؤ، اشعار کی ساخت، تخیل کی پرواز بالکل ہی نئی۔ میری نظر میں تو اس صدی کے مرزا غالب سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ آج کا دور مشینری ،کل پرزوں کا دور ہے۔ کمپیوٹر کا دور ہے۔ اب گل و بلبل کا ذکر کہاں،قصۂ پارینہ ہوگیا۔ علامہ ڈاکٹر محمداقبال کا یہ کہنا کہ :
جہاں خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساںبڑھ گئے سائے
آج بھی ایک درد میں مبتلا کردیتا ہے۔ گل و بلبل کی داستانیں اب WhatsApp اور SMS,Messengerنے لے لی ہے، تو انسان تو گھٹ ہی گئے نا… بلکہ بونے بن گئے۔ دل کو یہ کہہ کربہلا لیتے ہیں کہ تغیر زمانے کو ہے۔ کل جو کچھ تھا، آج نہیں۔ محض یادیں اور باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ پھر رونے پیٹنے سے فائدہ؟۔ تغیرزمانے کے حوالے سے بات کی جائے تو کل کے سیاستدانوں اور آج کے دونوں میں بہت گہرا فرق نظر آتا ہے۔ تقاضے جو بدل گئے بلکہ انسان تک بدل گیا۔
تو دیکھتے ہیں کہ آج پاکستان کی سیاست پہلے کی نسبت بہتر ہے یا محض شرمندگی کا باعث ہی بنتی جارہی ہے۔ دوسری بات صحیح ہے۔ افسوس کا مقام ہے لیکن حقیقت سے چشم پوشی ممکن بھی نہیں۔
خود نواز شریف اور ان کے قریبی رفقاء یہ اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں کہ پنجاب ہی ان کی سیاست کا کور ہے اور رہے گا اسی لئے شہباز شریف کو اگر وہاں سے نکال کر اسلام آباد میں بٹھادیا گیا تو ہوسکتا ہے عمران خان ، طاہر القادری ، شیخ رشید ، چوہدری نثار فرداً فردا ًیایکجا ہوکر پنجاب کی سیاست پر قابض ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو ن لیگ صفحہ ہستی سے مٹ جائیگی اسی لئے اب دبے دبے الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ مریم نواز کو ملک کا وزیر اعظم اور شہباز شریف کو اپنی ہی جگہ رہنے دیا جائے۔ بہت سے مبصرین اس فلسفہ سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر مریم کو ترجیح دی گئی تو خاندان میں رسہ کشی شروع ہوجائے گی بلکہ بات نفرت میں بھی بدل سکتی ہے۔ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ سب اندازے ہیں۔ ہوسکتا ہے حتمی طورپر کوئی دوسری ہی صورت نکل آئے۔
انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہWhere there is smoke, there is fire دھوئیں میں چنگاری ضرور ہوتی ہے۔ یہ محض قیاس آرائیاں نہیں کچھ نہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کچھ تو ہے جہاں سے بات نکلتی ہے۔ نواز شریف کا یہ اقدام اس بات کو سمجھ لینے کیلئے کافی ہے کہ شہباز شریف کے اعلان کے باوجود مریم آج ان سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ دست راست کہئے تو غلط نہ ہوگا۔
سوشل میڈیا پر ن لیگ کی تشہیر کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ مریم اس کی انچارج ہیں۔ شہباز و حمزہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتے تو پھر کیوں نہ مریم پر ہی نظر مرکوز رکھی جائے۔ ن لیگ کی مستقبل کی لیڈر وہ صاف نظر آرہی ہیں۔ ان کے جو ہر چند ماہ پہلے لاہور کی قومی اسمبلی NA-120 کی نشست پر ظاہر ہوئے جو نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔کلثوم نواز نے اس پر ضمنی انتخاب لڑا لیکن لندن جانے پر مریم نے یک و تنہا ماں کی الیکشن مہم چلائی اور جیت کا تاج اپنے سر کیا۔ نواز شریف بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور آج کل تو وہ ان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ بیٹیاں ویسے ہی باپ سے بہت محبت کرتی ہیں لیکن مریم تو نواز شریف کیلئے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں۔ ایسے میںکسی دوسرے کی جانشینی کا سوال مبہم ہی لگتا ہے۔