Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں دھندلکے مزید بڑھ گئے

صلاح الدین حیدر
ہر پاکستانی کی خواہش ہوگی کہ اُس کا ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہے لیکن اُس کی یہ دلی مُراد پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ روز بروز اُن میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔برآمدات تو پہلے ہی گر رہی تھیں، ملکی کرنسی بھی اپنی وقعت کھوتی دِکھائی دے رہی ہے۔ دُنیا میں پٹرول کی قیمتیں 50 ڈالرسے بڑھ کر65 ڈالر فی بیرل ہوگئیں اور پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 104.50 سے گھٹ کر صرف 3 دن کی قلیل مدت میں 6 فیصد سے بھی زیادہ اپنی قیمت کھو بیٹھا۔ 13 دسمبر کو جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو صرف 24 گھنٹے پہلے روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 112 تک گر چکی تھی اور عام خیال یہی ہے کہ یہ شاید مزید12,10روپے اور گرجائے گا۔ 
آپ خود ہی بتائیے، مملکتِ خداداد پاکستان میں مہنگائی کا کیا عالم ہوگا۔ بیرونی امداد نہ ہونے کے برابر، عالمی مالیاتی قرضے ملنے کی اُمید کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور روپیہ اب گرنا شروع ہوا تو ملکی معیشت کہاں جائے گی؟ اشیائے صرف کی قیمتیں کہاں پہنچیں گی؟ آلو، پیاز، دالیں، چنا، آٹا، مسالہ جات، پھل وغیرہ جو اس وقت بھی 250 سے 200 روپے تک فی کلو مل رہے ہیں، اُن کی قیمتیں کہاں جاکر رُکیں گی۔ آسمان سے اس وقت بھی باتیں کررہی ہے۔ اب اگر ہوش ربا گرانی ہوئی تو غریب بے چارہ تو روٹی کے ایک نوالے کو ترس جائے گا۔ یہ طرفہ تماشا اُس پر یہ کہ ارباب اقتدار بجائے معیشت کے پہیے کو صحیح چلانے کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جس کو دیکھو سب اچھا کی رَٹ لگانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔عوام النّاس نہ ہوگئے، گھاس پھونس کی گٹھری ہوگئے۔ جس وزیر کو دیکھو وہ اپنے آپ میں ہی مست ہے۔ بس ایک ہی صدا ہر طرف سے سنائی دیتی ہے، ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ نواز شریف کے الفاظ طوطے کی طرح رَٹ لیے گئے ہیں اور تمام تر زور بس اُنہی پر ہے۔ وزراء کو تو چھوڑیں وہ تو درباری ہیں۔ پانامہ کیس کے دوران انہوں نے اپنی ساری قوت سپریم کورٹ اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پر تنقید پر صَرف کردی۔ با لآخر وزارت جس کے لیے یہ سب تلملا رہے تھے، مل ہی گئی، لیکن جب سپریم کورٹ کا نواز شریف کیخلاف نااہلی کا فیصلہ آیا تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، قبرستان کی سی خاموشی تھی… کچھ عرصے بعد یہ پھر زندہ ہوگئے اور تو کچھ بنا نہیں، بس عمران کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔ سوال کرو کھیرا، جواب ملتا تھا ککڑی، پوچھو بینگن کے بارے میں، جواب آتا تھا آلو مٹر سیم کا۔ ظاہر ہے دلیل تو ان بے چاروں کے پاس تھی ہی نہیں، نہ ذہن تھا، نہ زبان، نہ ہی عقل، تو پھر جو کچھ سِکھادیا گیا وہ آکر پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (جو سرکاری ادارہ ہے اور جہاں سے سیاسی بیانات نہیں جاری کیے جاسکتے) میں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکال لی۔ مقصد صرف ایک تھا کہ نواز شریف، مریم نواز خوش ہوجائیں، وہ ہوگیا۔ ملک گیا بھاڑ میں، عوام کی کس کو پروا ہے۔ 
نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو احتساب کا آہنی ہاتھ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار تک جاپہنچا۔حدیبیہ شوگر مل کا کیس بھی سپریم کورٹ کے سامنے آگیا۔ ڈار صاحب لندن میں جاکر دردِ دل میں مبتلا ہوگئے، بستر پکڑلیا اور عدالت کے سامنے آنے کے بجائے، میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوادیا۔ اُنہی پر منحصر نہیں، یہ تو پوری حکومت چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہے۔ وزیراعظم جو نواز شریف کے گن گاتے تھکتے نہیں، ایک پاور پلانٹ کی تقریب میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے گن گانے میں آدھا گھنٹہ صَرف کردیا۔ کیا کسی وزیراعظم کا یہی کردار ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال (جو داخلی امور کے سوا باقی تمام مسائل پر تبصرہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں) نے بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کی شان میں قصیدے پڑھ ڈالے۔ علماء نے اسلام آباد کی اہم ترین شاہراہ پر 22 روز دھرنا دیا، اُسے تو وہ ختم کرا نہیں سکے، بہت زیادہ کیا تو کراچی کے ایگزیکٹو پاسپورٹ آفس کا افتتاح کردیا۔ کچھ تو اپنے پیش رو چوہدری نثار سے سیکھ لیتے، جنہوں نے ہزاروں جعلی قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ضبط کرڈالے، افغانیوں پر ضرب کاری لگائی، پاکستان کی بدنامی کرنے والوں کو واپس اُن کے ملک بھجوانا شروع کیا۔ 
احسن اقبال ٹھہرے ایک پروفیسر، اُن کی سمجھ میں اتنی باریک باتیں کہاں آتیں، جو کچھ سمجھا اور جس طرح وہ منصوبہ بندی کی وزارت چلا رہے تھے، اُسی طرح وزارت داخلہ کو بھی سمجھ بیٹھے، حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میری اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وزارت منصوبہ بندی کو منصوبے کی لاگت اور اُن کی تکمیل کی اجازت سے کیا مطلب تھا۔ پلاننگ ڈویژن یا منصوبے کی وزارت تو بس منصوبہ بندی کرتی ہے کہ5 سال میں کیا کچھ ہوگا، کون سے ترقیاتی منصوبے بنیں گے، کون سے منصوبے طویل المیعاد یا آنے والے10، 20 برسوں میں تکمیل پائیں گے، یہاں تو روزِ اوّل سے کہانی اُلٹی تھی۔منصوبوں کی شروعات کی اجازت تو نیشنل اکنامکس کونسل دیتی ہے، احسن اقبال کو آخر یہ اختیار دے کر ملک کی منصوبہ بندی پر کیوں زخم لگائے گئے؟
مسائل ایک ہوں تو آدمی خاموشی سے وقت کو مرہم سمجھ کر اکتفا کرلے، یہاں تو معاملات ہی اور ہیں۔ پارلیمنٹ ابھی تک حلقہ بندیوں پر ہی فیصلہ نہیں کرسکی۔ خبر اُڑا دی گئی کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان صلح صفائی ہوگئی ہے اور دو ایک روز میں دونوں جماعتیں مل کر انتخابات کی خاطر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئی حلقہ بندیوں کو سینیٹ سے منظور کرالیں گی۔ انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوجائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، خبر اُڑتے ہی، پارلیمان کی کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے اس کی تردید کردی اور دوسری طرف پوری  حزب اختلاف، بشمول پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور کئی ایک دوسری جماعتوں نے فاٹا یا شمالی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا سے انضمام پر بل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں ڈال کر اُسے واپس لینے پر شدید احتجاج کیا اور آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، 3 دنوں سے مسلسل حزب اختلاف چراغ پا ہے۔ واک آئوٹ پر واک آئوٹ ہورہے ہیں، بے چارے اسپیکر ایاز صادق صرف منہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ حکومت یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ انتخابات میں صرف 7,6 مہینے رہ گئے ہیں، ہر جماعت اپنے طور پر الیکشن کی تیاری کرنے میں ظاہر ہے مصروف ہوگی، وہ حزب اقتدار کو سنبھلنے کا موقع کیوںکر دے گی۔ یہی تو وقت پوائنٹ اسکورنگ کا ہے، پھر حکومت کی ذرا سی غلطی پر بھونچال تو اُٹھے گا ہی۔ حکومتِ وقت اس وقت چہارسو سے طوفانوں میں گھری ہوئی ہے، لیکن اُس کے وزرا ہوسکتا ہے، اندرونی طور پر پریشان ہوں، لیکن بظاہر تو سب کچھ اچھا ہے کی رَٹ لگانے میں مصروف ہیں۔دوسری طرف سانحۂ ماڈل ٹائون کا معاملہ ہے، جو 2014 میں پیش آیا تھا اور جس میں 14 بیش قیمت جانوں کا ضیاع ہوا تھا، جس کی رپورٹ جسٹس باقر نجفی نے ریلیز کردی، پھر کیا تھا ہر طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبے کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ مستعفی ہوجائیں اور مقدمات کا سامنا کریں، لیکن وہ کیوں استعفیٰ دیں، ملک میں ایسی کوئی مثبت روایت ہے ہی نہیں۔ پھر بھی (ن) لیگ مُصر ہے کہ آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں جیت اُسی کی ہوگی۔ چلئے وہ بھی دیکھتے ہیں۔
 

شیئر: