عنبرین فیض احمد۔ کراچی
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، ہمارے وطن عزیز کے لئے منی پاکستان کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ شہروں کی دلہن یعنی عروس البلادکا خطاب پانے والا شہر ہے۔یہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ بھی ہے جو لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ اس شہر سے ملک کے کونے کونے سے لوگ ملازمت تلاش کرنے کے لئے آتے ہیں لیکن اس کا اپنا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ شہر جس کی کبھی روشنیاں ہی گل نہیں ہوتی تھیں ،وہاں اندھیروںکا راج ہے۔ وہ شہرجس کی گلیوں سے صبا نے آدابِ خرام سیکھے تھے،آج گندگی اور غلاظت کی آماجگاہ ہے ۔ اس شہر کی صفائی مہم مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ پانی جیسی ضرورت کراچی کے شہریوں کے لئے نایاب ہو رہی ہے۔ سمندر کے کنارے آباد پیاسوں کے شہر کے باسی پینے کے صاف پانی کیلئے سرگرداں ہیں لیکن ہمارے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ہر سوگندگی اور غلاظت کا انبار لگا ہے۔ جیسے اس یتیم کا کوئی پرسان حال ہی نہ ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں کراچی یورپ کے کسی بھی شہر سے مقابلہ کر سکتا تھااسی لئے اکثر لوگ لندن اور امریکہ جانے کی بجائے کراچی آتے تھے لیکن اب وہی شہر غلاظت اور گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہاہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر انسانوں کے رہنے کا مقام نہیں۔ جس طرف سے بھی گزر ہوتاہے، بدبو اور تعفن سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ دیکھا جائے تو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آباد 2کروڑ سے بھی زیادہ ہے ۔ اس شہر کے وسائل بے شمار اورمگر مکینوں کے مسائل لا تعداد ہیں جن میں سرفہرست شہر کی صفائی ستھرائی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے میںناکام کیوں ہیں۔ جب بلدیاتی اداروں سے سوال کیا جاتا ہے تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کچرا اٹھانے کے لئے درکار سازو سامانموجود نہیں ۔ ان کے پاس مناسب اور جدید مشینیں، گاڑیوں اور افرادی قوت کا فقدان ہے۔ پہلے جو کچرا اٹھانے والی گاڑیاں تھیں ان میں سے زیادہ تر ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس مناسب فنڈز کی بھی کمی ہے اس لئے وہ یہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صفائی ستھرائی مہم پر حکومت ایک کروڑ روپے یومیہ خرچ کرتی ہے مگر یہ رقم کہاں جاتی ہے ، یقینا یہ بدعنوانی کی نذر ہوجاتی ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ ملک میں بدعنوانی کا کیا عالم ہے ۔یہ ایک ایسی بہتی گنگا ہے جس میں نہ صرف ہاتھ دھوئے جا سکتے ہیں بلکہ نہایابھی جا سکتا ہے ۔ کراچی کو جان بوجھ کر کچرا سٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے اخراجات کرنے کے برعکس کچرے کی ری سائیکلنگ کی صنعت بھی لگائی جا سکتی ہے جس سے آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کے مصداق فائدہ ہوگا ۔
شہر میںکچرے اور گندگی کی وجہ سے راستوں میں سیوریج کا پانی جمع ہوجاتا ہے اور پھر گلی ، محلوں میں بدبو کا جو عالم ہوتا ہے، وہ اہالیان کراچی اچھی طرح جانتے ہوں گے کیونکہ وہ اس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے محلوں کی صفائی کا عملہ دفتر اور سڑکوں سے غائب ہو جاتا ہے۔غلاظت اور گندگی کے ڈھیر وںکی وجہ سے ٹریفک کی روانی او رراہگیروں کا چلنا پھرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اس کچرے کے ڈھیر اور ان سے اٹھتی بدبو کی وجہ سے بچوں میں جلدی امراض وغیرہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر گلی اور محلے میں ٹنوں کے حساب سے گندگی موجودہے جس پرنہ صرف شہر بھر کی فضاآلودہ ہو رہی ہے بلکہ شہریوں کا سانس لینا بھی محال ہوچکا ہے اور تو اور بقر عیدجیسے مواقع پر بھی بلدیاتی اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہتی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں آلائشیں ہوتی ہیں جو سڑکوں پر یوں ہی پڑی رہتی ہیں ۔ان پر مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں جو فضا میں مزید آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ بلدیاتی نمائندے شہر کی صفائی ستھرائی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کارکردگی صفر ہوتی ہے۔
شہر کی بہتری کے لئے کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ یہ روز بروز کچرے کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے ۔ شہر قائدملکی آمدنی کا 70فیصد مہیا کرتا ہے پھر بھی اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں ؟ حیرت کی بات تویہ ہے کہ نکاسی آب کا نظام درہم برہم اور جگہ جگہ کچرا موجود ہے۔افسوس کہ ہم خود اپنے شہر کو صاف نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے بھی ہمیں غیر ملکیوں سے مدد لینی پڑرہی ہے گویاہمارے ملک میںمہتر اور مہترانیوں کا کال ہے یا ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں رہے کہ ہم روایتی جھاڑو پنجر مستعار لے سکیں۔
عروس البلاد پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر ہمارے صاحبان کوشاید اس حقیقت کا اندازہ ہی نہیں کہ کراچی کو نقصان پہنچنے سے ملک کا کتنا خسارہ ہوتا ہے۔ ا نہیں اس شہر کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی ہو گی تا کہ کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن جائے اور سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کریں۔اس سے نہ صرف اس شہر کا بلکہ ملک میں بسنے والے ہر فرد کا بھلا ہوگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی نااہلی اور غفلت نے لاکھوں شہریوں کو متعدی امراض اور دیگر مسائل کا شکارکر ریا ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس شہر میں” سرکاری ذمہ دار“ نام کی کوئی ہستی موجود نہیں، ورنہ یہ شہر اس طرح بے سروسامان نہ ہوتا ۔کیسی بات ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر لاوارث ہو گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے صفائی ستھرائی اور عوام کی خدمت کے دعوے محض بیانات و اعلانات تک محدود ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ۔گندگی کے ڈھیر ابلتے ہوئے گٹر اور پھر سڑکوں اور گلیوں میں بہتا ہوا گندا پانی آج کانہیں ، برسوں پرانا مسئلہ ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور سبب پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں جو ہر طرف بکھری دکھائی دیتی ہیں۔
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ دراصل شہر قائد کے ایک علاقے کی ہے جس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں انسان توکسی غیر ا نسانی مخلوق کا رہنا بھی محال ہوگا۔ یہ صرف ایک محلے یا علاقے کی بات نہیں ، پورے کا پورا شہرہی کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی ذمہ داران کی غفلت سے اس حال کو پہنچ چکا ہے۔ یوں کہئے کہ اقتدار کی رسہ کشی نے شہرقائدکو گندگی کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔گندے پانی کے جوہڑ، اسپتال او راسکولوں کے سامنے بنی کچرا کنڈی ،علاقے میں پھیلی بیماریاں ہر جگہ کچرے کے ڈھیر او رپھر تعفن زدہ گلیوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کراچی کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہاہے۔ کبھی یہ حال تھا کہ اس شہر کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا اور شام تک سڑکیں ایسی چمک رہی ہوتی تھیں جیسے آسمان پرکہکشاں، لیکن آج اس شہرمہوشاںکا یہ حال ہو چکا ہے کہ سڑکوں پرعام لوگوں کا چلنا پھرنا مشکل ہو چکا ہے ، ایسے میں بادِ صبا اور مہ رُخ و ماہ لقاان راستوں سے کیسے گزرتی ہوں گی۔
کراچی کے شہری پہلے ہی اپنے مسائل کی وجہ سے پریشان حال ہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، ہنگامے ، قتل و غارت گری ، ڈکیتی ، بھتہ خوری ،شورت ، ان سارے مسائل کی وجہ سے کتنے ہی لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ گھر وں میں بجلی اور پانی نہیں اور گھر سے باہر سکون نصیب نہیں ۔ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی نے بھی مسائل کا انبار لگا رکھا ہے ۔ شہر کے باسی جائیں تو جائیں کہاں، کس سے فریادکریں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک صوبائی حکومت ہے وہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ ناامید ہو چکے ہیں۔ پھر بھی صاحبان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔