ہماری قیمتی زندگی کے365 دن گزر گئے، ہمیں محاسبہ کرنا چاہئے کہ نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں
* * *ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ ریاض* * *
یہ دنیا کس طرح دوڑ رہی ہے کہ مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر رہے ہیں۔ ہمیں احساس بھی نہیں ہورہا اور ہماری زندگی کے ایام کم ہوتے جارہے ہیں اور ہم برابر اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی دنیاوی زندگی میں ایسے مصروف اور منہمک ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم اسی دنیا میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے حالانکہ عقلمند اور نیک بخت وہ ہے جو دنوں کی تیزی سے جانے اور سال وموسم کے بدلنے کو اپنے لئے عبرت بنائے، وقت کی قدر وقیمت سمجھے کہ وقت صرف اسکی وہ عمر ہے جو اس کے ہر سانس پر کم ہورہی ہے اور اچھے اعمال کی طرف راغب ہوکر اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔ وقت کا تیزی کیساتھ گزرنا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اُسوقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہوجائے(یعنی شب وروز کی گردش بہت تیز نہ ہوجائے) چنانچہ سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتہ کے برابر، ہفتہ دنوں کے برابر اور دن گھنٹے کے برابر ہوجائیگا اور گھنٹے کا دورانیہ بس اتنا رہ جائے گا جتنی دیر میں آگ کا شعلہ یکدم بھڑک کر بجھ جاتا ہے(مسند احمد، ترمذی)۔
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں۔ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں چنانچہ بعض بچپن میں، بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حقیقت کو بار بار ذکرفرمایا ہے:
٭تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو( النساء 78)۔
٭(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے(یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی)( الجمعہ 8)۔
٭جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے ( الاعراف34)۔
٭اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں اُسے موت آئے گی ( لقمان34) ۔
مختلف مواقع پر علمائے کرام وداعیان اسلام وعظ ونصیحت کرتے ہیں تاکہ ہم دنیاوی زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر وقتاً فوقتاً اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہیں اور زندگی کے گزرے ہوئے ایام میں اعمال کی تلافی زندگی کے باقی ماندہ ایام میں کرسکیں لہٰذا ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ،ان شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’5 امور سے قبل5 امور سے فائدہ اٹھایا جائے: بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے ، مرنے سے قبل زندگی سے، کام آنے سے قبل خالی وقت سے، غربت آنے سے قبل مال سے اور بیماری سے قبل صحت سے۔‘‘ (مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ) ۔
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ (یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام)، مال کہاں خرچ کیا؟ (یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں)، علم پر کتنا عمل کیا؟‘‘
میرے عزیز بھائیو! ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، جو پوری کائنات کا پیدا کرنے والا اور پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلا رہا ہے۔
ہمیں گزشتہ365 دن کے چند اچھے دن اور کچھ تکلیف دہ لمحات یاد رہ گئے ہیں، باقی ہم نے 365 دن اس طرح بھلادئے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ غرضیکہ ہماری قیمتی زندگی کے365 دن ایسے ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں حالانکہ ہمیں سال کے اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائی یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کئے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا بھی کئے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟
جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں،نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح میرے دینی بھائیو! آخرت کے تاجروں کو سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد ، ہمارے دوست واحباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کی اندھیرے میں چھوڑکر آجائیں گے، توکس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟ کس طرح ہم پل صراط سے بجلی کی طرح گزریں گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامہ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ کس طرح حوض کوثر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے ملے کہ جس کے بعد پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؟ جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب وکتاب کے ہمیں جنت الفردوس میں مقام ملے گا؟ آخرت کی کامیابی وکامرانی ہی اصل نفع ہے جس کے لئے ہمیں ہرسال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
ابھی وقت ہے۔ موت کسی بھی وقت اچانک ہمیں دبوچ لے گی، ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
٭ اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ (النور31) ۔
٭کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے(یعنی گناہ کررکھے ہیں)اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ( الزمر53) ۔
٭ یقینانیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں (ہود114) ۔
یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور آخری موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجئے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں، ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔‘‘( المؤمنون 100,99)۔
لہذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل اس دنیاوی زندگی میں ہی ا پنے مولاکو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے بدن سے ہماری روح اس حال میں جدا ہو کہ ہمارا خالق ومالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف فانی زندگی کے عارضی مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور دنیاوی زندگی کے عیش وآرام اور وقتی عزت کے لئے جد وجہد کرتے ہیں۔
لہٰذا نماز وروزہ کی پابندی کے ساتھ زکوٰۃکے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی کریں۔قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ صرف حلال روزی پر اکتفا کریں خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر وکوشش کریں۔ احکام الٰہی پر عمل کرنے کے ساتھ جن امور سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے باز آئیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اپنے آپ کو اور بچوں کو دور رکھیں۔ حتی الامکان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھیں اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کریں۔ اپنے معاملات کو صاف ستھرا بنائیں۔ اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ غیر مسلم حضرات ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔
نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر Happy New Year کے نام سے متعدد پروگرام کئے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی ہے حالانکہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح وبہبود کے بڑے بڑے کام کئے جاسکتے ہیں، انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں مگر ظاہر ہے کہ ان پروگراموں کو منعقد کرنے والے نہ ہماری بات مان سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت ہمارے مخاطب ہیں لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہئے؟۔ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی مخصوص عمل اس موقع پر مطلوب نہیں اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین اور فقہاء سے ’’ہیپی نیو ایئر‘‘کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس طرح کے مواقع کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے رہنمائی فرمائی ہے:
’’(رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہورہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل نہیں ہوتے ہیں اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں یعنی لغو وبے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں، بلکہ برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ ‘‘
عصر حاضر کے علمائے کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ عمل صرف اور صرف غیروں کا طریقہ ہے، لہٰذا ہمیں ان تقریبات میں شرکت سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور اگر کوئی شخص ’’ہیپی نیو ایئر‘‘کہہ کر ہمیں مبارک باد پیش کرے تو مختلف دعائیہ کلمات اس کے جواب میں پیش کردیں، مثلاً اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں امن وسکون قائم فرمائے، اللہ تعالیٰ کمزوروں اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ برما، شام، عراق اور فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں لائے۔ اللہ تعالیٰ نئے سال کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنادے،آمین۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ ہم خود ’’ہیپی نیو ایئر‘‘کہہ کر پہل نہ کریں بلکہ اس موقع پر حاصل شدہ پیغام پر خود داعی بن کر مختلف انداز سے مثبت جواب پیش فرمائیں۔