قومی نصب العین اوراسلاف کے نقش قدم سے ہٹ کر چلنے کی سزا ہم پر مسلط ذلت و رسوائی ، خواری و ناداری ہی ہے
* * * اللہ بخش فریدی۔ فیصل آباد* * *
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم جو دنیا میں در بدر بھٹک رہے اور ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہے یہ اپنے قومی نصب العین اور اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ کر چلنے ہی کی سزاہے کیونکہ مجموعی طور پر قوموں کو گمراہی ، ضلالت اور راہ راست سے بھٹکنے کا حساب دنیا میں ہی دینا ہوتا ہے۔ قوم اور امت کا معاملہ سزاء و جزا دنیا ہی میں ہوا کرتی ہے۔امت ِمسلمہ بحیثیت ِ قوم یا امت کے آخرت میں نہیں پیش ہوگی۔وہاں تو سب کو انفرادی طور سے حساب دینا ہے۔وہاں ہر انسان انفرادی طور اپنے کئے کی سزاء و جزاء پائے گا۔ اجتماعی طور سے ہمارا حساب کتاب اسی دنیا میںہی ہونا ہے اور قانونِ قدرت ہے کہ کسی بھی امت یا قوم کے اجتماعی گناہوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا، ان کی سزا ضرور ملتی ہے اور وہ سزا اجتماعی طور پر ہم مسلمان صدیوں سے بھگت رہے ہیں دنیا میں ذلیل و رسوا ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔ ہمارے عظیم مفکر اقبال رحمہ اللہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
جیسے قوموں اور امتوں کو سزا اجتماعی گناہوں پر ہے ، اسی طرح امتوں کی توبہ بھی اجتماعی قبول ہوتی ہے ،انفرادی نہیں۔انفرادی تو ایک ایک شخص کی توبہ ہوئی نا۔ جب ملت کے تمام افراد مل کر اجتماعی توبہ کریں گے تو وہ امت کی توبہ بنے گی،تو پھرکہیں جا کر امت کے دن بدلنا شروع ہوں گے، امت کی تقدیر سنورے گی۔
اے مسلمانو! اللہ کیلئے اپنے پیارے رسول کی امت کا احساس کرو اور مجموعی طور پر تائب ہو کر خدائے حقیقی کے حضور معافی مانگو اور حضور کی امت کو سربلندیوں کی طرف لے جاؤ ورنہ تم رسول اللہ کو کسی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔ ہمارے ایک ایک کے انفرادی گناہ اجتماعی بن گئے ہیں، جن کی سزا دنیا میں اجتماعی طور پررسول اللہ کی امت بھگت رہی ہے، دنیا میں رسوا ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔بظاہردنیا میں ہمیں انفرادی طور پر سزا ملتی نظرنہیں آتی اور آخرت کے تصور سے بے نیاز ہو کر گناہوں پر گناہ کیے جا رہے ہیں اور ہم بڑے بھولے منہ سے کہہ دیتے ہیں کہ ایک میں نہیں ساری دنیا کر رہی ہے ، ایک میرے نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔
ہمیں انفرادی طور پر اس کی سزا قبر اور حشر میں ملے گی مگر اجتماعی طور پر جو شامت رسول اللہ کی امت پر طاری ہے دنیا میں ذلت و رسوائی کی ، یہ ہمارے ایک ایک کی انفرادی بد اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو مل کر اجتماعی بنے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔اگر ہم ایک ایک کرکے اپنی انفرادی اصلاح نہیں کریں گے تو اجتماعی اصلاح کیسے ہو گی امت کی؟ اگر امت کا ایک ایک فرد انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے اور اپنے اندر یہ سوچ اور جذبہ پیدا کر لے کہ کم از کم میری وجہ سے رسول اللہ کی امت پر سیاہی نہ پڑے،کم از کم میری وجہ سے حضور کی امت بد نام نہ ہو، میری وجہ سے حضور کی امت پر قہر نازل نہ ہو تو امت کی اصلاح ہوتے ذرا دیر نہیں لگے گی۔ امت کے ہر ہر فرد میں اس سوچ کا موجزن ہونا انتہائی ضروری اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اگر یہ جذبہ بیدار نہیں ہوتا تو میرے خیال میں اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں۔
قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے ہیں ۔
اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہو، اور سائز میں ذرہ سے بھی چھوٹی ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی و بربادی کا سماں بن گیاہے ۔ اب وہ فطرت ، قانون ِ قدرت کے رحم و کرم پر ہے۔
چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے بلکہ ہر شعبۂ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لئے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر خداوند ی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضبِ الٰہی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاح کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر قہرِ الٰہی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے۔ زلزلوں، قدرتی آفتوں، یزید پلید، تاتاریوں، منگولوں، چنگیزیوں، ہلاکیوں کی صورت میں مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔
قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے قوم کے اصلاح کار کے لئے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پرتعلق پایا جائے۔ دلوں میں آخرت کے محاسبہ کا اندیشہ موجود ہو اور کسی بھی قسم کے فساد اعمال کو معاشرہ پر مسلط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب قوم کے اندر اصلاح معاشرہ کیلئے ایک مسلسل جدوجہد کی جاتی رہے اور کسی بھی برائی و فساد کے معاملے میں چشم پوشی سے کام لے کر اسے قوم کے اجتماعی وجود میں راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔
اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کتنی ہی خرافات ، برائیاں اور بد اخلاقیاں ہیں جو پوری طرح معاشرہ کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ اللہ و رسول کو بھول کر فضولیات میں وقت ضائع کرنا قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔
آج ہماری قوم کے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول کے ذکر سے نہیں باطل خرافات اور شیطانوں کی محافل سے سکون ملتا ہے۔ ڈرامہ و فلم سازی، موسیقی کی دھنوںپر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم میں پوری سرایت کر چکی ہے ۔ اصلاحِ معاشرہ کی طرف کوئی سوچ، کوئی قدم اٹھتے نظر نہیں آتے نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ ان احوال میں امت پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل نہیں ہونا توکیا ہونا ہے؟
ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ راستہ اگر خوبصورت ہوتو اس پر چلنے سے پہلے پتہ کروکہ کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہو تو راستے کی پروا مت کرو کہ وہ کتنا کٹھن اور خطرناک ہے۔‘‘
ہماری منزل بہت خوبصورت و عظیم ہے مگر ہم اس کی طرف جانے والے مسافر نہیں لگتے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت کا جو وہ کسی کو دیتا ہے، اسے اپنی ذات پر بھگتنا ہے۔ اگر کوئی زانی ہے تو یہ عمل اسکے گھر بھی لوٹ کر آئے گا، ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل ، غفلت و گمراہی ، ضلالت و فسق و فجور کا حساب دینا ہے اور جو اذیت ہم رسول اللہ کو دے رہے آپ کے طریق پر نہ چل کے اور آپ کی امت کی پروا نہ کر کے ، اس کا تو حساب اتنا کٹھن ہونا ہے اور اتنا سخت کوڑا برسنا ہے جس کا شاید ہمیں اندازہ ہی نہ ہو۔یقینا ہمارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔
دنیا میں ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہو چکی ہے ۔ ہمارے اسلامی ملک ایک ایک کر کے دجالی قوتوں کے تسلط میں جارہے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ہم مسلمان بحیثیت مجموعی بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔
ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نہ تو کوئی انفرادی اصلاح کی سوچ پائی جاتی ہے اور نہ اجتماعی۔ بدخلقی، بے راہ روی ، فحاشی ،عریانی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ معاشرہ میں شیطانیت کا دور دورہ ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آج نظام ِمصطفی اور اصلاحِ امت کا نعرہ محراب و منبر سے بھی لگانا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے نظام ِباطل سے سمجھوتہ کر لیا، ہم اور ہمارے بڑے کار پردازو رہنما موجودہ باطل نظام سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے، ہماری قدو کاوش، سعی و حرکت ختم ہو گئی ، ہم نے جدو جہد کرنا ترک کر دی، نہ نظام مصطفی لا سکتے مگر ہم ساری زندگی آواز تو لگاتے رہتے ، نوجوان نسل کا جوش ابھار کے نظام مصطفی کے مجاہد تو مہیا کرتے رہتے ٹیں ملت کو مگر افسوس کہ یہ محراب و منبر والے اتنا بھی نہ کر سکے کہ وہ اس کا تسلسل ہی قائم رکھتے۔وہ نظام ِباطل سے سمجھوتہ کر کے بڑے سکون سے اپنے اپنے کو ٹھیوں میں جا بیٹھے۔
اس سے بڑھ کر اور کم بختی کیا ہو سکتی ہے امت کی کہ آج دین کے اہم ستون بھی تربیت کے مراکز نہیں رہے اور نہ بعض علماء درستگی اخلاق، پختگی کردار کا درس دے رہے ہیں۔ کیا علماء نبیوں کے وارث نہیں ؟ کیا امت کی اصلاح ان کی بنیادی ذمہ داری نہیں ؟ کیا امت کو حضور کی شریعت و طریقت کے دائرہ میں نتھ ڈال کے رکھنا ان کا فرض نہیں ؟ ان کے واعظ ، ان کے خطابات صرف فضائل و کمالات، مقام و مرتبت، فیض و برکات تک محدود ہیں۔ یہ صرف خطابت کے جوش اور زور دار گرجوں سے حضور اقدس اور آپ کے اصحاب کی شان کے واعظ سنا کر آپ کی اور اصحاب کی شان بلند کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا میں ایسے آپ کی شان بلند نہیں ہو گی۔لوگوں کو آپ کے اخلاق، اوصاف و کردار، آپ کے اسوۂ حسنہ اور صحابہ کرامؓ کے کردار کا عملی نمونہ بنانا ہوگا۔ جب لوگوں کے اخلاق و اوصاف آپ کے اسوہ اور صحابہ ؓکے کردار کے عین مطابق ہوں گے تو دنیا پرخودبخود آپ کی شان واضح ہو جائیگی۔ صرف خطابات کے کھوکھلے جوش سے آپ کی شان واضح نہیں ہو گی دنیا پر، پہلے خود آپ کے اخلاق اور اسوہ کا عملی نمونہ بننااورلوگوں کو اس کا پابند کرنا ہوگا۔
ہم عملی طور پر آپ کے کردار و اوصاف کو چھوڑ کر صرف شان بلند کرنے کے چکر میں پڑے ہیں جبکہ ہماری بنیادی ذمہ داری آپ کی اتباع کرنا ہے۔ حضور کی شا ن بلند کر نا اللہ کریم نے اپنے ذمہ کرم پہ لی ہے، اور اتنی بلند کر دی ہے کہ ہماری سوچیں بھی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ہماری ذمہ داری آپ کے اسوہ حسنہ کو بلند کرنا ہے، آپ کے کردار، آپ کے اوصاف کو نمایاں کرنا اور عملی طور پر اپنا کر دنیا کو دکھانا ہے کہ یہ ہیں ہمارے عظیم نبی کے عظیم اوصاف۔ اور پھر دیکھنا کہ کیسے دنیا اسلام کی طرف دوڑی اور کھینچی چلی نہیں آتی۔تم عملی طور پر دنیا کو اسلام اور آپ کے عظیم اوصاف و کردار کا اصل چہرہ اور آئینہ دکھاؤ تو سہی، اگر دنیا مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک اسلام پر جمع نہ ہوجائے تو دیکھنا۔