Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی آڑ میں ناجائز وصولی

 علی الشریمی ۔ الوطن
توقع کے عین مطابق بعض خود غرض تاجر ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سے ناجائز فائدہ اٹھاکر سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں سے حد سے ز یادہ رقم وصول کرنے لگے ہیں۔ ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کی شرح 5فیصد ہے اور یہ لوگ اس سے زیادہ لے رہے ہیں۔ بعض تاجرایک ریال اور چند ھللہ والی چیز 2ریال، اسی طرح 10ریال 30ھللہ والی شئی 11ریال میں فروخت کرنے لگے ہیں۔عنوان یہ ہے کہ ریزگاری ناپید ہے اور حساب کتاب میں الجھن ہوتی ہے لہذا بجائے یہ کہ ایک ریال یا چند ھللہ والی چیز کو صرف ایک ریال میں فروخت کرتے اسے اپنے مفاد میں بڑھاکر 2ریال وصول کررہے ہیں۔
بعض تجارتی مراکز ایسے بھی ہیں جنہوں نے محکمہ زکاة وآمدنی کے ماتحت ویلیو ایڈیڈ ٹیکس انتظامیہ میں اندراج نہیں کرایا، اس کے باوجود ویلیو ایڈیڈ ٹیکس وصول کررہے ہیں۔ویلیوایڈیڈ ٹیکس کے حوالے سے تجاوزات کا دائرہ مذکورہ مثالوں کے دائرے تک محدود نہیں۔ سرکاری اداروں نے ایسی کمپنیوں کا بھی پتہ لگایا ہے جنہوں نے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کے نفاذ کا وقت آنے سے پہلے ہی وصولی کا چکر شروع کردیا تھا۔
نئی بات یہ ہے کہ ایک محب وطن سرمایہ کار نے مقامی تاجروں ، سرمایہ کاروں، دکانداروں اور تجارتی مراکز کے مالکان کو ویلیو ایڈیڈ ٹیکس از خود بھرنے اور صارفین کو اس سے نجات دلانے کی مہم شروع کی ہے۔ اس تاجر نے ”ٹیکس ہمارے ذمے“کے زیر عنوان ہیش ٹیگ شروع کیا۔ اسے عوام میں اس قدر پذیرائی ملی کہ یہ ٹرینڈ بن گیا۔ بہت سارے دکانداروں، ریستورانوں اور تاجروں نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے صارفین کو اضافی خرچ سے بچائیں گے اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکس ان کی طرف سے از خود جمع کرائیں گے۔
ہیش ٹیگ ”ٹیکس ہمارے ذمے“سے متعلق صارفین اور تاجروں کے رد عمل کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ”شاہ بندرالتجار“کا واقعہ ابھر کر سامنے آیا۔میں اس کا عینی شاہد نہیں بلکہ ایک عرب سیریل میں یہ واقعہ فلمایا گیا تھا اور وہیں سے وہ میرے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے۔قصہ کچھ یوں ہے:
قدیم زمانے میں ایک عرب ریاست میں اشیاءکے نرخ آسمان کو چھونے لگے تھے۔عوام پریشان ہوئے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس بلائے ناگہانی سے نجات دلانے کی دعائیں کیں۔ اگلے روز ریاست کے بازاروں میں ایک صاحب کو یہ منادی کرتے ہوئے سنا گیا کہ” اے نوجوانو! اے نوجوانو سنو!موقع پر موجود لوگ غیر حاضر حضرات کو یہ اطلاع دیدیں کہ شاہ بندر التجار (تاجروں کا سربراہ)تاجروں سے جنگ کریگا، مہنگے نرخوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیگا، ہاتھی کو چوہے میں تبدیل کردیگا، ایک کلو گوشت کی قیمت ربع دینار مقرر کرادیگا۔“پھر رات کے وقت تاجروں کا سربراہ اپنا مخصوص لباس زیب تن کرکے محل سے باہر آیا، اس نے پُرجوش خطاب کیا ، عوام کو نوید سنائی کہ آزمائش کا وقت گزرچکا ہے۔ مہنگائی کا خاتمہ ہوگا۔یہ سب کچھ ہوا۔ آسمان سے باتیں کرنے والے وعدے عوام کو سننے کو ملے لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوا۔
میں یہ قصہ پیش کرکے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو وعدہ بھی کیا جائے اسے پورا کیا جائے ، یہ اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بعض تاجروں کا اولین مقصد صرف اور صرف اپنے سامان کو بیچنا اور آمدنی بڑھانے والے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگ جو ویلیوایڈیڈ ٹیکس صارفین کے بجائے خود اپنی جیب سے بھرنے کا اعلان کررہے ہیں، ان کی نگرانی کی جائے۔ جن تاجروں نے یہ ہیش ٹیگ چلایا ہے کہ” ٹیکس ہمارے ذمے“، وہ اس پر عملدرآمد کے قانونی طور پر پابند نہیں صرف اور صرف اخلاقی طور پر پابند ہیں۔ چند روز بعد اشیاءکے نرخوں میں اضافے کو روکنے کی ضمانت مہیا کرنی ہوگی۔ہمیں یہ تجربہ بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ تجارتی مراکز مختلف اشیاءسستی فروخت کرنے کی پیشکشیں کرتے ہیں اور در پردہ اشیاءکی قیمتیں بڑھا کر انہی قیمتوں پربیچ دیتے ہیں جو وہ پہلے سے مقرر کئے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اثر انداز لوگوں خصوصاً ”نایف کو“خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے جنہوں نے ٹیکس ہمارے ذمہ ہیش ٹیگ کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے بڑا خوبصور ت پیغام دیا ہے اور وہ یہ کہ ”اس کار خیر میں ہر کمپنی کی شرکت میرے لئے مسرت کا باعث بنے گی۔میری آرزو ہے کہ جو کمپنی بھی اس میں حصہ لے رہی ہو وہ گاہک پر آنیوالے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کا نمبر اور بل نمبر بھی سامنے لائے۔ یہ بھی بتائے کہ وہ ویلیو ایڈیڈ ٹیکس میں رجسٹرڈہے۔ جو کمپنی بھی ایسا کریگی وہ قابل تعریف ہوگی۔ کاش کہ اس میں وہی لوگ حصہ لیں جو اپنی بات کا پاس کرسکتے ہوں ورنہ وعدے کے حوالے سے ملنے والی پذیرائی کا سلسلہ الٹ سکتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: