Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان ہمیں پکار رہا ہے

سوسن الابطح۔ الشرق الاوسط
نئے سال 2018ءکی شروعات خوبصورت خبر سے ہوئی۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ500ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے اسلحہ کا سودا منسوخ کردیا۔ اس خبر کا زیادہ خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ اطلاع اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو کے سرکاری دورہ ہند سے چند دن قبل ہی منظر عام پر آئی۔ نتنیا ہو کئی دن تک ہندوستان میں رہیں گے۔ ان کے ہمراہ فوجی ماہرین اقتصاد اور سرمایہ کار بھی ہونگے۔ وہ اس موقع پر ہندوستان کے ساتھ مزید معاہدے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو زیادہ گہرے بنانے والے سمجھوتے کرنا چاہیں گے۔ اسرائیل ہند کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ مذکورہ اطلاع سے قبل اسرائیل کو ہندوستان کے حوالے سے ایک اور صدمہ پہنچا۔ ہندوستان نے القدس سے متعلق امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تاریخی اجلاس میں اسرائیل کی مرضی سے مختلف فیصلہ دیا۔ ہندوستان نے امریکہ کی دھمکیوں کو مسترد کرکے خود کو ان ممالک کی صف میں شامل کرلیا جنہوں نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہندوستان نے مسئلہ فلسطین کی تاریخی حمایت کی روایت برقرار رکھی۔ فلسطین سے متعلق اپنے موقف کو غیر متزلزل ثابت کیا۔
اسرائیل میں ہندوستانی رویئے کی بابت بڑی مایوس کن فضا بن رہی ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے موقع پر زبردست پذیرائی کی گئی تھی۔ و ہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے فلسطین پر ناجائز قبضے کے بعد اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ جولائی میں ہونے والے دورے کے موقع پر جس شخص نے بھی نریندر مودی اور نتنیا ہو کی تقاریر سنی تھیں ،اس کا یہی کہناتھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان حائل دیواریں گر چکی ہیں۔ اسرائیل کیلئے نئی دہلی کے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں۔ ماضی میں جو کبھی نہیں ہوا تھا وہ اب ہوچکا ہے۔ نریند رمودی نے اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کے قائدین سے ملاقات کیلئے رام اللہ کے دورے کا کوئی پروگرام نہ بنایا اور نہ ہی اس بابت سوچا حالانکہ فریقین کے ساتھ توازن کے اصول کے تحت یہ دورہ کیا جانا چاہئے تھا۔
ممکن ہے اسرائیل کے ساتھ میزائل کے سودے کی منسوخی کا محرک سیاسی نہ ہوالبتہ جس انداز سے اور جس وقت منسوخی کا اعلان کیا گیا ہے وہ کسی محرک سے خالی ہو ایسا نہیں لگتا۔ اسرائیل کے ایک صحافی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ” ہندوستان، اسرائیل کے ساتھ پیار کار شتہ بنانا چاہتا ہے، دائمی تعلق نہیں“۔ اسرائیلی صحافی نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے بہت سارے داخلی اور خارجی اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ وزیراعظم مودی اسرائیل کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا نصب العین ایسے عالم میں پورا کرنہیں سکتے جبکہ لاکھوں ہندوستانی اسرائیل سے نفرت کررہے ہوں۔
اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کو کسی طرح کا کوئی اشکال نہیں۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اسرائیل سے کوئی مشکل درپیش نہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن پر دائیں بازو کے انتہا پسندانہ ہندو پرستی کے رجحانات کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہندوستان کا مسئلہ ان عربوں کے ساتھ ہے جو اپنے اطراف رونما ہونے والی ہر تبدیلی کو سیاسی پیمانے سے ناپتے ہیں۔ وہ ثقافتی اقدار کے بجائے مختصر مدتی امور کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
آپ ہندوستان میں کہیں بھی چلے جائیں وہاں آپ کو مساجد ، اسلامی نقوش نمایاں شکل میں نظرآئیں گے۔ نئی د ہلی میں جامع مسجد شاہجہانی اور چھٹی صدی ہجری میں تعمیر ہونے والا قطب مینار آپ کو اپنی جانب مائل کئے بنا نہ رہ سکے گا۔ قطب مینار 20سے زیادہ مندروں کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی تاریخ ، ہندوﺅں کی تاریخ سے بغلگیر نظر آتی ہے۔ عربی زبان کے ابجدی حروف ہندوستانی زبانوںسے گلے ملتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اردو زبان میں اشتہارات اور بورڈ جو عربی رسم الخط سے ملتے جلتے ہیں عربوں کو اپنی جانب مائل کرتے ہیں۔ عرب نہ جانے کیوں ہندوستان میں اپنے تمدن اور تہذیب کے توسیعی عمل سے پشت پھیر رہے ہیں۔ عرب نہ جانے کیوں اسرائیل کو ہندوستان میں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔
انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں او ر ہندوﺅں کے درمیان خونریزی کراکر بڑا مشکل اور عجیب و غریب تعلق استوار کردیا ہے۔ انگریزوں نے دونوں مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان عداوت کا شیطانی کردار ادا کیا تاہم اقوام کا تمدنی پیمانہ انتقام کی تابعداری نہیں کرتا اور نہ ہی فکر و نظر کے افق کی تنگی پر آمادہ کرتا ہے۔ عربوں کے لئے زریں مواقع ہیں۔ عرب انہیں دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ عربوں کے سامنے راستے کھلتے ہیں اور وہ انہیں بند کردیتے ہیں۔ ہندوستان میں 250ملین مسلمان آباد ہیں۔ ہندوﺅں کی تعداد روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ ہندوستان جلد ہی پوری دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک بننے جارہا ہے۔ آئندہ برسو ںکے دوران انکی تعداد 300ملین تک پہنچ جائیگی۔ چین میں بھی 100ملین مسلمان آباد ہیں۔ یہ سب عربی زبان کو انتہائی احترام اور تقدس کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر اسرائیل ایک ارب 200ملین کی آبادی والے ہند کے ساتھ بوجوہ تعلقات بنانے کیلئے مرا جارہا ہے تو عربوں کے پاس ہندوستان کیساتھ تعلقات بنانے کے ہزار اسباب ہیں۔
ہمارے پاس اسرائیل کی طرح میزائل نہیں جنکی مارکیٹنگ ہمیں ہند میں کرنی ہو۔ ہمارے پاس تبادلے کیلئے جدید ٹیکنالوجی بھی نہیں تاہم ذہانت اور حسن فہم کا تقاضا نہیں کہ ہم ایسے ملک کو جس نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہو اس کی طرف سے منہ پھیر لیں اوراسے اسرائیل کا لقمہ تر بنوادیں۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: