حکومت پاکستان کو جو خدشہ تھا وہی ہوا، امریکہ نے اسے پریشان کن پیغام دے ہی دیا
جمعرات 11 جنوری 2018 3:00
ڈاکٹر عبداللہ المدنی ۔ الاقتصادیہ
نومبر 2017ءکے اواخر میںسپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے حافظ محمد سعید نامی شخصیت کی رہائی کا فیصلہ جاری کیا۔ وہ 9ماہ تک نظر بند رہے تھے۔ حافظ محمد سعید کو جو لوگ نہیں جانتے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ سابق انجینیئر ہیں، عالم دین ہیں، لشکر طیبہ کے بانیا ن میں سے ایک ہیں۔ لشکر طیبہ جماعت الدعوة کا عسکری ونگ اور دہشتگرد گروہ مانا جاتا ہے۔ جماعت الدعوة پاکستان بھر میں دینی مدارس کی نگہداشت اور قیام کی سرپرستی کررہی ہے۔
دوسری جانب حافظ محمد سعید کو انتہائی خطرناک دہشتگرد سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کو انکی تلاش ہے۔ امریکہ انکی گرفتاری میں مدد کرنے والے کو 10ملین ڈالر بطور انعام دینے کا وعدہ کئے ہوئے ہے۔ وہ ہندوستان کے مطلوب اول مانے جاتے ہیں۔ نئی دہلی نے جن 50 مطلوبین کی فہرست جاری کررکھی ہے ان میں وہ سرفہرست ہیں۔
نئی دہلی کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نومبر 2008ءکے دوران ممبئی میں ہونے والے خونریز حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ممبئی کے بڑے ہوٹلوں ، مشہور ریستورانوں ، مسافروں سے بھری ٹرینوں کے اسٹیشنوں اور اہم مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔ دہشتگرد حملے میں ہندوستانی سیکیورٹی اور عام شہریوں میں سے 166افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں 6امریکی بھی شامل تھے۔ 300سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی سے احساس تھا کہ حافظ محمد سعید کی عدالت سے رہائی کا مطلب پاکستان پر پابندیوں کی صورت میں برآمد ہوگا۔ اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علاقائی و بین الاقوامی تعلقات بھی کشیدہ ہونگے۔ امریکہ کے ساتھ جھگڑا ضرور ہوگا کیونکہ جب سے صدر ٹرمپ وائٹ ہاﺅس پہنچے ہیں تب سے امریکہ انتہا پسند اور دہشتگرد طاقتوں سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستان کو شک کے دائرے میں رکھے ہوئے ہے۔
کسی خدشے کے پیش نظر پاکستان نے ججوں کو حافظ محمد سعید کی نظر بندی جاری رکھنے کے فیصلے پر آمادہ کرنے کیلئے جملہ توانائیاں استعمال کیں تاہم سپریم کورٹ لاہو ر رجسٹری کے ججوں نے حکومت پاکستان کی تمام دلیلوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔ انہوں نے سیاسی بنیادوں سے بالا ہوکر محض قانونی بنیادوں پر اپنا فیصلہ جاری کردیا۔ یہ ایک مثال ہے اس بات کی کہ عدلیہ کے بعض عہدیدار ملک کے اعلیٰ مفادات کو مدنظر رکھے بغیر قانون کی لفظ بہ لفظ پابندی کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
حکومت پاکستان کو جو خدشہ تھا وہی ہوا۔ وائٹ ہاﺅس نے حافظ محمد سعید کی رہائی کے فیصلے کی سخت مذمت کی۔ اسے پریشان کن پیغام قرار دیا۔ واضح کیا کہ حافظ محمد سعید کو گرفتار کرنے اور مقدمہ چلانے کیلئے ضروری تدابیر نہ کی گئیں تو امریکہ اور پاکستان کے تعلقا ت کی بابت نئی بحث شروع ہوجائیگی۔ یہ انتباہ اس وجہ سے بھی تھا کہ حافظ محمد سعید افغانستان اور کشمیر میں جنگجوﺅں کی مدد کا کھلم کھلا اعلان کرتے رہتے ہیں البتہ جنگی سرگرمیوں میں اپنی جماعت کے ملوث ہونے کی تردید بھی کرتے رہتے ہیں۔
اس واقعہ کے 2ہفتے بعد پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں نوجوانوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دینی مدارس کے پھیلاﺅ کے رواج پر نظر ثانی کامطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے مدارس چاہئیں جو تعصب نہ پھیلائیں اور روا داری کی پالیسی پر گامزن نسلیں تیار کریں۔ پاکستان میںمدارس کی تعداد20ہزا ر سے زیادہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ پاکستانی جنرل نے مذکورہ بیان دیکر امریکہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ عدالتی فیصلہ کالعدم نہیں کراسکے تو وہ دینی مدارس کو لگام لگانے کی حتی الامکان کوشش کرینگے۔ باجوہ پاکستان امریکہ تعلقات کو انحطاط سے بچانے کیلئے کوشاں ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ نئے سال کی آمد پر ہوا کا رخ پاکستانی کشتیوں کے موافق نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ نے نئے سال کی آمد پر پہلی ٹویٹ بڑی سخت جاری کی ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو امداد نہیں دیگا۔ پاکستان امریکی رہنماﺅں کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ 15سال تک امداد دیکر بے وقوفی کی۔ بدلے میں ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ پاکستان افغانستان میں دہشتگرد وں کو نشانہ بنانے میں معمولی مدد دیتا ہے، اب ایسا نہیں چلے گا۔
سوال یہ ہے کہ اسلام آباد امریکہ کے اس سخت موقف سے کس طرح نمٹے گا؟ پاکستان 11ستمبر 2001ءکے طیارہ حملوں کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دورمیں امریکہ کی کافی مدد کرچکا ہے۔شروع میں پاکستان کے سرکاری اور عوامی حلقوں نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پر انتہائی غضبناک ردعمل دیا مگر سچ یہ ہے کہ غصیلے کالم ہوں یا پاکستان کی افرادی و مادی قربانیاں ہوں۔ افغانستان اور ہندوستان پر آگ میں تیل چھڑکنے کے الزامات ہوں۔ امریکی امداد سے بے نیازی کا اظہار ہو یا بیجنگ پر انحصار کا عندیہ ہو یا ،افغانستان میں قیام امن کی بابت امریکی کوششوں کی ناکامی کا دعویٰ ہو، اس طرح کی کسی بات سے بات نہیں بنے گی۔
صرف 2باتیں ایسی ہیں جن سے معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حافظ محمد سعید کو گرفتار کرکے حوالے کردیا جائے۔ دوسرے یہ کہ سراج الدین حقانی کی زیر قیادت دہشتگرد نیٹ ورک کو قابو کرلیا جائے۔ امریکہ کا اس نیٹ ورک پر الزام ہے کہ یہ طالبان سے گہرے رشتے استوار کئے ہوئے ہے اور افغانستان میں امریکی افواج پر حملوں میں اسی کا ہاتھ ہے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ حقانی گروپ پاکستانی اراضی کو اپنی مشکوک سرگرمیوں کا اڈہ بنائے ہوئے ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے پاکستانی سی آئی ڈی کو اس کا علم ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭