میری ایک دلی تمنا ہے۔ طفلک بے دست و پا کی طرح حالت بے کسی میں پکار اٹھا رہی ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نثار ثاقب اپنی انتہائی اہم مصروفیتوں سے ایک ہفتے کی رخصت لیں اور سعودی عرب کا طوفانی دورہ کریں۔ پہلا پڑاؤ سعودی دارالحکومت ریاض میں رکھیں۔ پروٹوکول تو انہیں انتہائی اعلیٰ اور معیاری ملے گا اور ا نکا قیام کسی ڈیلکس ہوٹل میں ہو گا لیکن اگلے دن علی الصبح وہ شہر کے کسی ایسے حصے کا رخ کریں جہاں پاکستانی تارکین وطن اکثریت میں مقیم ہیں۔ انکا کام آسان کرنے کیلئے میں 3محلوں کے نام تجویز کردیتا ہوں۔ ایک کا نام منفوحہ ہے۔ شہر کے جنوب میں واقع ہے۔ دوسرا حارۃ الرفاع ہے اور تیسرے کا نام شمیسی ہے۔ یہ دونوں شہر کے وسطی علاقے میں ہیں۔ جب 70ء کی دہائی میں سعودی عرب نے اپنی تعمیر نو کا آغاز کیا تھا تو پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں تعمیری شعبے سے وابستہ افراد مختلف شہروں میں آ اترے۔ مملکت کی تجسیم کا آغاز ہوا او رہمارے محنت کشوں کے ہاتھوں اور بدنوں نے جادو جگانا شروع کیا۔ صحرا میں شاہراہو ں کے سانپ جمال بچھاتے گئے۔ ان کے کناروں پر عمارتو ں کے گوہر رکھے گئے۔ افق پر تعمیراتی مشینری سارسوں کی طرح گردن اٹھائے دن رات شور مچاتی رہی۔ شہر دھما دھم گونجتا رہا۔ ہمارے کڑیل ہموطن اپنے بدن توڑتے ، بنیادیں رکھتے اور پھر ان پر دیوار و در اٹھاتے گئے۔ ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو بلاناغہ ترسیل زر کے مرکز پہنچتے اور اپنا مشاہرہ وطن کی راہ پر ڈال دیتے۔ پاکستان کی تعمیر میں بھی سرعت آتی گئی۔تقریباً 3دہائیوں میں ہمارے محنت کشوں نے ایک بادیہ نشین سعودی عرب کو دنیا کے جدید ترین شہر دے دیئے۔ پھر جیسا کہ ہوتا ہے۔ ہررؤز نئے شہر تعمیر نہیںہوتے۔ نئی شاہراہیں نہیں رکھی جاتیں تو مملکت کی تعمیر کم و بیش مکمل ہوگئی۔ ہمارے مزدوروں کے اوقات کار کم ہوتے گئے اور جستجوئے روزگار کا آغاز ہوا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار جب علی الصبح حارۃ الرفاع یا شمیسی یا منفوحہ جائیں گے تو انہیں اس محلے کے مرکز میں اپنے ایک ، ڈیڑھ درجن ہموطن سڑکوں پر کھڑے بیٹھے نظرآئیں گے۔ سروں پر ڈھاٹے جمائے، ہر گزرتی گاڑی کو پرامید نظروں سے دیکھیں گے کہ شاید ان کی مزدوری کا سامان ہو جائے۔ چند ایک کو یہ گاڑیاں روزانہ اجرت پر لیجاتی ہیں اور باقی ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید انتظار کرنے کے بعد اپنے ٹھکانے کو واپس ہو جاتے ہیں۔ کبھی ہماری تعداد مملکت میں 26لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ان میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر بھی تھے۔ سعودی حکومت بھی انہیں محسنین جان کر چشم پوشی کرتی رہی لیکن تابکے؟ تعمیراتی کام کم ہوا تو حکومت نے اپنے قوانین کو سختی سے لاگو کرنا شروع کیا۔ یوں پاکستانیوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اب احتمال ہے کہ 25لاکھ کے قریب ہوں گے۔
جسٹس ثاقب نثار اپنی گاڑی ایسے ہی کسی سڑک پر کھڑے بے روزگار گروپ کے پاس روک لیں اور ان میں سے کسی ایک سے مکالمہ کا آغاز کردیں۔ ان پر یہ حقیقت کھلے گی کہ ان کا مخاطب سعودی عرب میں اپنے بے کار ہونے سے زیادہ پاکستان میں اسے اور اس کے خاندان کو درپیش مسائل پر پریشان ہے۔ برسوں کی استخواں شکن مشقت کے بعد اپنے بچوں کے لئے آبائی شہر میں گھر کی تعمیر کے لئے ایک قطعہ اراضی خریدا تھا۔ قبضہ گروپ نے وہاں ڈیرہ جما لیا۔ ابھی تک واگزار نہیں ہوا۔ اگر مکان تعمیر کرانے کے بعد کرائے پر اٹھایا تو کرائے دار جعلی دستاویزات تیار کراکے مالک بن بیٹھا ہے۔ ایک عشرے سے دیوانی مقدمہ چل رہا ہے۔ ناامیدی ہے۔ کچھ آبائی اراضی ہے۔ متعلقین نے ملکیت کا حق جتا رکھا ہے۔ تاریخیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ دھمکیاں الگ مل رہی ہیں۔ ایک ماہ کی رخصت پر جانا ہوتا ہے تو شب وروز تھانے او رکچہری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف سے رشوت کی طلب ہوتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کو دکھڑا بیان کرنے کے لئے گروہ کے سارے افراد آگے بڑھ آئیں گے۔ ہر ایک کی اپنی کہانی ہو گی۔ اپنا گریہ ہوگا۔ وطن عزیز میں ظلم، ناانصافی ، بے نوائی!!!
اس کے بعد وطن عزیز کے موقر ترین منصف عمرے کی ادائیگی کریںگے ۔ وہ جہاں جائیں گے۔ انہیں ایسی ہی مایوس کن داستانیں سننے کو ملیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حالت احرام میں مقام ابراہیم کے قریب 2رکعت نفل ضرور ادا کریں گے اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے دعامیں ہاتھ ضرور بلند کریں گے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ ان بے نور پردیسیوں کے قصہ ہائے غم سننے کے بعد یہ غور بھی کریں گے کہ ان میں مسائل کا حل کیا ہو؟ وطن عزیز کو اس وقت سالانہ 19ارب ڈالر کی ترسیلات زر دنیا بھر سے ہورہی ہے۔ اس میں سے 5.5ارب ڈالر سالانہ صرف سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ارسال کرتے ہیں جو دنیا بھر کے کسی بھی دوسرے ملک سے بھیجی جانے والی رقم سے زیادہ ہیں اور اتنی بڑی رقم ارسال کرنے والے یہ صحرانشین بے وطن اپنے وطن میں بھی بے وطن ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں حال ہی میں ایسی 10درخواستوں کی شنوائی کا آغاز ہوا ہے جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کو اپنے ملک کے انتخابات میں رائے دہی کا حق دیا جائے۔ فیصلہ تو جانے کب ہو لیکن اگر یہ حق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مل بھی گیا تو اس کا کتنا فائدہ انہیں پہنچے گا؟ اپنے حلقے کے انتخاب میں ان کا ووٹ کتنا بھاڑ جھونک لے گا؟امریکہ سالانہ 2ارب ڈالر کی خیرات ہمیں دے کر ہمارے ملک پر کاٹھی ڈال لیتا ہے۔ اپنی مرضی کی حکومت بنواتا ہے۔ بات بات پر دھمکیاں دیتا ہے۔ ہردوسرے روز ڈومور کا نعرہ لگاتا ہے اور ہماری حکومت دست بستہ سرتسلیم خم کئے عجزو نیاز کی تصویر بنی رہتی ہے۔
ہم غریب الوطن ، مساکین اپنی عزیز ازجان سرزمین کے خزانے میں سالانہ 19ارب ڈالر کا اضافہ کرتے ہیں اور پھر بھی بے نوا، عبود ہیں۔ میری یہ دلی تمنا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار سوو موٹو ایکشن لیکر یہ حکم جاری کریں کہ چاروں صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں ا ن محسنین پاکستان کیلئے 5،5نشستیں مختصر کی جائیں۔ ان کیلئے انتخابات بیرون ملک قائم ہمارے سفارتخانوں میں ہوں۔ میں جسٹس ثا قب نثار کو مطلع کرتا ہوں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں انتہائی اعلیٰ تعلیمیافتہ بے غرض ، محب وطن اور تجربہ کار افراد موجود ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھے بہت سے بدطینت ، لاپروا او رحریص ارکان سے ہزاروں درجے بہتر ہونگے جن کی اکثریت ملک میں مچے کہرام کی ذمہ دار ہے۔