وحشی درندوں میں صرف ہاتھی ہی ایسے ہیں جن کی حس معاشرت انسانوں کے طرز حیات سے مشابہت رکھتی ہے۔ ہتھنی بچے کو جنم دینے کے بعد بالکل ایک عورت کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ سونڈ سے اسے اٹھا کر ، سہارا دے کر کھڑا کرتی ہے۔ لمحوں میں بچہ چسر چسر ماں کا دودھ پیتا، اس سے اٹھکیلیاں کرنا شروع کرتا ہے۔ اس سے پیار کا اظہار کرتا ہے۔ نومولود کو کسی بھی مشکل میں دیکھ کرمامتا کی ماری بے قرار ہو جاتی ہے اور چنگھاڑ کر اپنے گروہ کی دوسری ہتھنیوں سے مدد کی طلبگار ہوتی ہے۔ بچے کی موت کی صورت میں باقاعدہ صف ماتم بچھتی ہے۔ دوسری ہتھنیاں مردہ بدن کے گرد گھیرا بنائے ، پہرو ں اداس کھڑی رہتی ہیں۔ یہ خصائل بیشتر دیگر جانوروں میں مفقود ہوتے ہیں۔ بچہ اگر دوسرے درندوں سے محفوظ رہ کر بلوغت تک پہنچ جائے توپھر اس کا شباب بھی ایک قابل دید عنصر ہوتا ہے۔ اپنے طویل دانتوں اور سونڈ سے درختوں کی چھال ادھیڑتا چلا جاتا ہے۔ بدن دیوار آہن بنتا ہے۔ ا س کی چنگھاڑ سن کر ارنے بھینسے رستہ چھوڑتے ہیں، شیر کنی کتراتے ہیں اور گینڈے خوف سے لرزتے ہیں۔ کسی بھی مدمقابل کو ثانیوں میں ادھیڑ دیتا ہے۔ یوں 6،7دہائیاں اس کے قدموں کی دھمک جنگل پر لرزہ طاری کرتی رہتی ہے پھر ستمگر وقت کی الٹی گنتی شروع ہوتی ہے۔ پہاڑ سابدن اضمحلال کا شکار ہونا شروع ہوتا ہے۔ قابل فخر یادداشت میں سے ایام طفولیت چنگاریاں بنے ابھرتے ہیں۔ وہ لمحات لوحِ یاد پر ابھرتے ہیں۔جب وہ ماں کے رحم میں سے ایک گل تھوتھنا بچہ بنا زمین پر گرا تھا۔ اضمحلال کا شکار ٹانگیں بھاری بھرکم بدن کا بوجھ اٹھائے جائے پیدائش کی طرف روا ں ہوتی ہیں۔ زوال آشنا ہوتا بدن شب وروز، پہرو ں سفر میں رہتا ہے اور بالآخر کوسوں کا فاصلہ طے کر کے وہیں پہنچتا ہے جہاں سانسوں نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انتہائے داستان !! موت کی آغوش میں ڈھے جاتا ہے۔آرزوئے جاہ و حشم بھی انسان کو کیا کیا ستمگر بنا دیتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک ملک نے عنفوان شباب کی طرف مسافت کا آغاز کیا تھا۔ جہانگیری کی طمع نے سر اٹھایا ، خون گرم تھا۔ چنگھاڑ سے تیسری دنیا سہم گئی۔ کوریا میں دندناتا جا گھسا،اس کے آدھے حصے پر قابض ہو گیا۔ پھر ویت نام اپنی اگلی منزل ٹھہرائی۔ حریت پسند ویت کانگ اپنے آتشیں نیپام بموں کا نشانہ بنائے۔ لاکھوں مرے۔ پھر صدی کے اختتام سے قبل افغانوں کے ہاتھوں دوسری بڑی طاقت سوویت اتحاد کو انجام تک پہنچایا۔ کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور بن گیا اور بعد میں عراق اور لیبیا اس کے اہداف ہوئے۔ اس کی چنگھاڑ کرہ ارض پر لرزہ طاری کرتی رہی۔ صرف افغانستان کا مرد کہستانی اس کے دام میں نہ آیا اور وہ آج بھی اس سپر پاور کو ہزیمت سے دوچار کر رہا ہے۔ مرکز برائے بین الاقوامی تزویراتی تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق صرف افغانستان میں امریکہ 841ارب ڈالر صرف کرچکا ہے۔ براؤن یونیورسٹی کی محققہ نیتا کرانفورڈ کے مطابق عراق ، افغانستان اور پاکستان میں اکتوبر 2001ء سے اب تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 5کھرب ڈالرکے اخراجات اٹھ چکے ہیں او ران میں سے 2ارب ڈالر صرف افغانستان لے گیا ہے۔ ان میں وہ مصارف شامل نہیں ہیں جو امریکی حکومت عراق اور افغانستان سے واپس آئے اپنے ذہنی اور جسمانی معذور فوجیوں کے معالجے کے لئے مختص کرتی ہے۔ اسٹاکہوم میں قائم بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے امن کے اعداد وشمار کے مطابق امریکی دفاعی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ 30فیصد ہے جبکہ دوسرے نمبرپر چین کا 13 فیصد ہے۔ روس اپنے دفاع پر دنیا بھر کے مجموعی بجٹ کا 4فیصد صرف کرتا ہے۔ برطانیہ 3.3فیصد ،ہندوستان 3.1فیصد اور فرانس 2.4فیصد خرچ کرتے ہیں۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی دفاعی بجٹ میں 54ارب ڈالر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کانگریس نے اس کی منظوری دے دی تو 2018کے مالی سال میں اکلوتی سپر پاور کا سالانہ دفاعی بجٹ 6.3کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ یہ54ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ صدر عالی مقام کی تجویز ہے کہ امدادی خوراک ، طبی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے لئے مختص رقوم میں سے منہا کر کے یہ 54ارب ڈالر دفاع کو دے دیئے جائیں۔ 7اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے افغانستان میں اپنی جنگ کا آغاز کیا تھا۔ نومبر 2001ء میں وہاں 1300امریکی فوجی تھے۔ ان کی تعداد 2010ء تک بڑھ کر ایک لاکھ ہوگئی۔ صدر اوباما کی معاملہ فہمی اور حقیقت پسندی کام آگئی۔ 2017ء تک وہاں یہ تعداد کم ہو کر 8400فوجی رہ گئی۔ اس دوران وہاں 2371امریکی اور 1136اتحادی فوجی مارے گئے۔ جان ہارنے والے طالبان اور دوسرے جنگجوؤں کی تعداد 42100تھی جبکہ کام آنے والے افغان شہریوں کی تعداد 31419تھی۔ افغان فوجی اور پولیس کے اہلکار 30470تھے جو جان سے گئے تھے۔ افغانستان میں اس 16سالہ جنگ نے کل ایک لاکھ گیارہ ہزار 442جانیں لے لی ہیں اور امریکہ آج بھی وہاں ناکام ہے۔ 35ہزار طالبان اب بھی امریکی اور مقامی حکومتی فوجیوں سے برسرپیکار ہیں او ران کے قبضے میں ملک کا 35فیصد علاقہ ہے ۔ امریکی غرور اور آن کو بلند رکھنے کے لئے ہر امریکی شہری اپنی جیب سے 23ہزار 386ڈالر سالانہ ٹیکس کے طور پر ادا کر رہا ہے۔ 40لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں امریکی بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے جبکہ شہری بھی زیادہ مختصر اور علیل زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی بھی ایک رات میں امریکہ میں 5لاکھ 53ہزار 742بے گھر فٹ پاتھوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور گرجاؤں میں شب بسری کرتے ہیں۔ اس بے بام ودر زندگی کی مثال تاریخ میں صرف 1929ء میں آنے والی عظیم کساد بازاری میں ملتی ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت افغانستان سے نہیں نکلیں گے اور پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہ وہ دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے اس کی ساڑھے 25کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد بند کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انہو ںنے مزید سخت اقدامات اٹھانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ نہ جانے میرے ذہن میں وہ سالخوردہ ، نڈھال ، صنعف زدہ ہاتھی کیوں آگیا ہے جس کی چنگھاڑ برسوں پہلے جنگل پر لرزہ طاری کرتی تھی مگر جس کی ناتواں ٹانگیں اب اس کا بندن بھی اٹھانے سے معذور ہو چکی ہوں اور جو آہستہ آہستہ اپنے زوال اور دم آخریں کی طرف گھسٹتا جا رہا ہو۔