علی المزید ۔ الشرق الاوسط
بڑی پرانی کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک قصہ گو عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے دربار میں حاضر ہوا۔ خلیفہ نے فرمائش کی کہ تم نے جو کچھ عجیب و غریب مناظردیکھے ہوں انکی بابت ہمیں سناﺅ۔ قصہ گو کہنے لگا امیر المومنین میں آپ کو ایسی بات سناﺅں گا جو میں نے بچشم خود دیکھی ہے۔ خلیفہ نے کہا کہ ضرور سناﺅ۔ قصہ گو نے کہا کہ جس وقت اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا ترکہ تقسیم ہورہاتھا اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا۔ ایک بیٹے کے حصے میں ایک لاکھ دینار (عصر حاضر کے لحاظ سے یہ 10لاکھ دینار بنتے ہیں) آئے۔ میں اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے ترکے کی تقسیم کے موقع پر بھی موجود تھا۔ انکے ہر بیٹے کے حصے میں صرف ایک ، ایک دینار آیا تھا۔ اللہ نے مجھے زندگی دی میں نے عمر بن عبدالعزیز کے ایک بیٹے کو دیکھا کہ وہ سو گھڑ سواروں کو اسلحہ وغیرہ سے آراستہ کررہے تھے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے بیٹوںکو خلفائے وقت کے درباروں میں مدد کیلئے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھا۔
اسکا سبب یہ ہے کہ سلیمان بن عبدالملک نے اپنی اولاد کو نظر انداز کیا۔ انہیں نہ سکھایا نہ انکی تربیت کی۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی اولاد کو سکھایا پڑھایا ۔ اسی وجہ سے دونو ںکی اولاد کے درمیان دولت کے ضیاع اور اسے بڑھانے کافرق نمایاں شکل میں سامنے آیا۔ تعلیم یافتہ او لاد نے ایک دینار سے لاکھوں دینار کمائے جبکہ تعلیم و تربیت سے محروم اولاد نے لاکھوں دینار گنوا دیئے۔
میرے ذہن میں یہ قصہ 2ہفتے قبل ”سابک“ کی جانب سے ”نساند“ پروگرام کے اجراءکے موقع پر ابھر کر سامنے آیا۔ سابک کے منصوبے کے 2بنیادی مقصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ سعودی نوجوان جدید علوم و ہنر سے آراستہ ہوں اور دوسرا ہدف چھوٹی اوردرمیانی کمپنیوں کو اپنے قدموں پرکھڑا کرنا ہے مجھے اس سے زیادہ دلچسپی ہے۔ نساند پروگرام نے 4 نکاتی امداد پروگرام شرو ع کیا ہے۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو اچھوتے افکار سکھانا اوراس حوالے سے انہیں روشنی دینا ہے۔یہ وہی کام ہے جو عمر بن عبدالعزیز نے اپنی اولاد کو علم سکھا کر کیا تھا۔ انہوں نے اولاد کو عقل اور معرفت کا ہتھیار دیکر دولت کمانے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ میری آرزو ہے کہ ہمارے تاجر اور صنعتکار اس قسم کے تجربات سے استفادہ کریں اور فرزندان وطن کے حوالے سے عمر بن عبدالعزیز والے کردار کو زندہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭