پٹرول کے نرخوں میں اضافہ؟!
عبدالعزیز حسین الصویغ ۔ المدینہ
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تیل کے نرخوں میں اضافہ ہماری مجبوری ہے۔ ایک بیرل پٹرول پر لاگت کتنی آتی ہے اوراس کی صفائی پر کتنا خرچ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے؟
بہت سارے لوگ ان دنوں یہ اہم سوال کررہے ہیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر محمد سالم سرور سے بھی یہ سوال کیا گیا۔ وہ پٹرول امور کے ماہر ہیں۔ انہیں پٹرول اور توانائی امور میں بڑا تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ اپنے قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ اپنی طرف سے انکے جواب میں نہ کوئی کمی کی اور نہ کوئی اضافہ۔
1۔ جی ہاں! پٹرول میں اضافے پر ہم مجبور ہیں کیونکہ اندرون مملکت پٹرول کا استعمال عالمی سطح پر ہونے والے خرچ کے تناظر میں حد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پٹرول ہمارے یہاں سستا ہے اور اس کا ایک حصہ ناحق ضائع کیا جارہا ہے۔ ہمارے یہا ں پٹرول کی کل پیداوار کا 35فیصد اندرون ملک خرچ ہورہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو مستقبل میں ہم پٹرول کی برآمد کی صلاحیت سے رفتہ رفتہ محروم ہوجائیں گے۔ تیل کی ہماری ساری پیداوار اندرون ملک ہی خرچ ہوجایا کریگی۔
2۔ تیل پیداوار کی لاگت میں نہ صرف یہ کہ ایک بیرل تیل کی پیداوار اور اسکی صفائی کے اخراجات شامل ہیںبلکہ اس میں ”متبادل صوتحال کی لاگت “ بھی داخل ہے۔ مطلب یہ کہ اگر ایک بیرل پٹرول مملکت کے بجائے بیرونی مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو اندرون ملک فروخت کی جانے والی رقم اور بیرون ملک بیچی جانے والی رقم میں کتنا فرق ہوگا؟ لاگت کی اصل کہانی یہی ہے۔ اس تناظر میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم حکومت کو کتنی رقم سے محروم کررہے ہیں۔
3۔سعودی تیل پیداوا ر کی حقیقی اوسط لاگت فی بیرل 9ڈالر آتی ہے۔ ایک بیرل پٹرول کی صفائی پر لاگت 2ڈالر آتی ہے ۔ عالمی شرح کے تناظر میں یہ لاگت کم ہے لیکن اسے اندرون مملکت پٹرول کے نرخ نامے کا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا۔
4۔ تیل نرخوں میں اصلاح کا کوئی بھی اقدام اندھا دھند طریقے سے نہیں کیا جاتا۔ یہ سب کچھ معاشرے پر جملہ منفی اثرات کا جائزہ لیکر کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ پٹرول کے نرخو ںمیں کسی بھی اضافے سے متاثر طبقوں کے زرتلافی کے طور طریقے کیا ہوسکتے ہیں اور مستقل بنیادوں پر اس امر کو پیش نظررکھا جانا بھی لازم ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭