جمعہ 19جنوری 2018ء کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی جریدے البلاد کا اداریہ نذ ر قارئین ہے:
ایرانی حوثیوں کے بیلسٹک میزائلوں کے سعودی عرب خصوصاً دارالحکومت ریاض پر حملے آئندہ اتوار کو مسلم وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کا کلیدی موضوع ہونگے۔ سعودی عرب کی درخواست پر ہنگامی اجلاس منعقد ہوگا۔ حوثیوں کے میزائل حملوں کے سنگین نتائج پر غور و خوض کیا جائیگا۔
یمن کی آئینی حکومت کی بحالی کیلئے قائم سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحادیوں نے یمن سے مملکت پر حوثیوں کے 87میزائل حملے ریکارڈ کئے۔ حوثیوں نے 66 ہزار119گولے بھی مملکت پر داغے۔ انہوں نے عملی اقدامات کی زبان میں ثابت کردیا کہ ایرانی نظام حوثیوں کی مسلسل پشت پناہی کررہا ہے۔ ایرانی حکمراں سعودی عرب، علاقے اور دنیابھر کے امن و امان کو خطرات لاحق کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 2216اور 2231کو مسلسل چیلنج کئے چلے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں شہروں اور قریوں کی آبادی پر بیلسٹک میزائل داغنا بذات خود بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس کے بھی وہ مرتکب ہورہے ہیں۔
سعودی عرب نے یمنی بھائیوں کی مدد کیلئے یمن کی قانونی حکومت کی ہر فریاد پر اس کا ساتھ دیا۔ انسانیت سوز حوثی جرائم سے نمٹنے میں یمنی حکومت کا تعاون کیا۔ حوثیوں نے لوٹ مار، تخریب کاری اور تباہ کاری مچا کر یمن کی معیشت کا دھڑن تختہ کردیا ۔ سعودی عرب نے کسی امتیاز کے بغیر یمن کے تمام علاقوں کے باشندوں کو امدادی سامان فراخ دلی سے فراہم کیا۔ شاہی ہدایت پر یمن کے سینٹرل بینک میں 2ارب ڈالر جمع کرائے تاکہ اقتصادی بحران سے نمٹا جاسکے۔
سعودی عرب نے یمنی بحران کے سیاسی حل کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچی سے بھی بھرپور تعاون کیا۔ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ خلیجی فارمولے ،اس کی حکمت عملی، قومی مکالمہ کی قراردادوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216کو بنیاد بناکر یمن کا مسئلہ حل کیا جائے مگر حوثی ایران کے ایجنڈے کے نفاذ کیلئے بضد ہیں اور ایرانی نہیں چاہتے کہ یمن کا مسئلہ حل ہو ۔ انہیں یقین ہے کہ یمنی مسئلے کے حل سے خطے میں استحکام آئے گا اور وہ ایسا نہیں ہونے دینا چاہتے۔