جمعہ 19جنوری 2018ء کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی جریدے عکاظ کا اداریہ نذ ر قارئین ہے:
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اوپیک کے رکن ممالک اور زیادہ تیل پیدا کرنیوالے غیر رکن ممالک کے درمیان پٹرول کی پیداوار کا واضح جامع منصوبہ تیار کیا تھا۔ اسکے تحت طے کیا گیا تھا کہ رکن اور غیر رکن ممالک کتنا پٹرول نکالیں گے ۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں فاضل پٹرول کے مسئلے سے کس طرح نمٹیں گے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد نے ثابت کردیا کہ سعودی عرب تیل منڈی کو منظم کرنے اور رکھنے کی کامل اہلیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کی پالیسی نے کامیابی کا اعتراف کرالیا۔
سعودی عرب اور روس نے مل جلکر پٹرول پیداوار کی حکمت عملی ترتیب دی ۔اس کی بدولت تیل کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ ایک بیرل پٹرول کی قیمت 70ڈالرتک پہنچ گئی۔ اس سے پٹرول کے شعبے میں اوپیک کے کلیدی کردار کی اہمیت بھی مضبوط اور مستحکم ہوئی۔
آرامکو کے سربراہ نے خام تیل کو کیمیکل میں براہ راست تبدیل کرنیوالی ٹیکنالوجی کی ماہر 2امریکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کا اعلان کرکے تیل کی دنیا میں سعودی عرب کے کلیدی کردار کا ایک اور جھنڈا گاڑ دیا۔ اس معاہدے نے ثابت کردیا کہ سعودی عرب پوری دنیا میں تیل اور کیمیکل پیدا کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذخائر مملکت کے پاس ہیں۔ تیل کی پیداوار پر سب سے کم لاگت والا ملک بھی سعودی عرب ہی ہے۔ مملکت کے تیل ذخائر 260ارب بیرل تک پہنچ چکے ہیں۔
ان سارے اعدادو شمار ، اشاریوں اور اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے طاقتور اقتصادی ممالک میں سعودی عرب کہاں کھڑا ہوا ہے ؟ اعدادو شمار نوید سنا رہے ہیںکہ 2030کی آمد پر سعودی وژن کے عین مطابق مملکت کا اقتصادی نظام روشن کل اور خوبصورت وطن کے حوالے سے جملہ امکانات سے بھرپور طریقے سے نمٹنے کا اہل ہوگا۔