سیل فون پر اپنے سوالوں کے جوابات دیکھ کرلگا شیطان ہمارے پیچھے پڑ گیا
اُم مزمل۔جدہ
وہ اسے مخبر سمجھ رہی تھی،وہ اپنی مخبری پر جھنجھلا رہا تھا۔اس نے خود اس معاملے کو سلجھانے کی تدبیر شروع کردی اورکہا،کیاتم میرے بارے میں اور لوگوں سے شیئرکرتے ہو جو ابھی قبل از وقت ہو جیسا کہ ہم اس تعطیلات میں کہاں کا پروگرام ترتیب دینا چاہتے ہیں ،کون سے ممالک گھومنے کے لئے کس روٹ کو لینا چاہئے اور کن ممالک کے لئے صرف ایک ویزا کافی ہو گا اور کس ایئر لائن کا ٹکٹ اسکے لئے بہترین پیکیج دے سکے گا اور وہاں کون سے ایسے ہوٹل ہونگے جو ایئر پورٹ کے قریب بھی ہوں اور ایسی سروس مہیا کریں کہ جس سے کم وقت میں
کم اجرت دے کر شہر کی سیر کی جاسکے اور مجھے وہاں سے دراصل اپنے داداجان کے لئے کیسی شال چاہئے کہ وہ آسانی سے استعمال کرسکیں ۔
یہ بات میںنے آپ سے کی اورقبل اس کے کہ آپ مجھے ان سوالوں کا جواب دیتے کہ میرے سیل فون پر ان تمام سوالات کے جوابات اس خاص شعبے سے متعلق بھر پور معلومات،اشتہارات کی صورت میں ملنے لگیں۔یہ سب کیا ہے آخر؟“
وہ اسکی تفصیلی بات سن کر خود حیران ہو رہا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہم صرف دو لوگوں نے آپس میں جوگفتگو کی وہ سارے شہر میں پھیل جائے حتیٰ کہ لوگ اتنی محنت کرکے ہمارے لئے تمام معلومات بالکل صحیح ہمیں بروقت پہنچائیں اور اپنی شناخت بھی نہ بتائیں۔ یہ تو کوئی ہمارا بہت ہی قریب سے ہمیں اور ہماری باتوں کو جان رہا ہے اور ایساہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ چند گھنٹوں میں تمام باتیں معلوم کرکے اس کو اشتہار کی صورت میں یہ جتا رہا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں اتنی زیادہ معلومات رکھتا ہے کہ ٹھیک ہماری رینج تک بھی جانتا ہے۔یہ سب تواسی وقت ممکن ہے جب ہم دونوں میں سے کوئی ایک کسی سے وہ باتیں ڈسکس کرے جو فقط ہم دونوں کے درمیان ہوئی تھیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم دونوں میں سے کسی نے بھی اپنی بات کسی سے شیئرنہ کہ ہو اور ہماری ہر بات کم از کم سیل فون کو معلوم ہو جائے اور وہ ہماری پرائیویسی کی باتیں بھی ہم تک یوں پہنچادے جیسا کہ ہم نے اسے یہ سب کچھ اپنا رشتہ دار سمجھ کر ہمدردی حاصل کرنے کے لئے بتایا ہو۔
وہ سر پکڑے بیٹھا تھا۔اس پر ابھی صرف یہ سوچ غالب تھی کہ وہ اس پر یقین کیوں نہیں کر رہی یا دوسرے الفاظ میں وہ ایسا کیوں سمجھ رہی ہے کہ میں نے ہی وہ بات جو فقط ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان ہوئی تھی،وہ آگے کس طرح پہنچائی کہ ہم نے جس جس جگہ جانے کا پروگرام بنایا، اس سلسلے میں ایک دوسرے کے خیالات سنے اورسیر و تفریح کے حوالے سے اپنے جذبات سے آگاہ کیااور یہ بتایا کہ اس جگہ لوگ جاتے ہیں تو اس کی تاریخی حیثیت کے بارے میں اسکی اہمیت جانتے ہوئے ہی ایسا روٹ ترتیب دیتے ہیں کہ ایسی ایئر لائن سے سفر کریں جو ہمیں اسٹاپ اوور دے اورجس ملک کی ایئر لائن سے ٹکٹ خرید رہے ہیں وہاںکا گھومنا کم خرچ میں ممکن ہو جائے لیکن:
بات وہیں آکر اٹک جا تی ہے کہ جب ہم نے کسی سے ذکر کیا ہی نہیں تو کسی کو بھی ہمارا اتنا خیال کیسے آیاکہ اپنی محبت کا اظہار ایسے کریں کہ دہشت کے مارے ادھ موا ہی کر دیں؟
اسے پھر کوئی بات یاد آئی توکہنے لگا ”ہاں مجھے یاد آیا ، جب گوگل پر کوئی چیز سرچ کرتے ہیں تو اس سے متعلق چیزوں کے اشتہارات آنے لگتے ہیں یہ تو ان کے سسٹم میں فیڈ کیا گیا ہوگا لیکن یہ بات تو بالکل سمجھ سے باہر ہے کہ جس کے متعلق کوئی انفارمیشن گوگل سے لی ہی نہ جائے اور آپس میں کو ئی دو افراد گفتگو کریںتو کیا ابلیس نے یہ کام سنبھال لیا ہے کہ فوری طور یہاں کی بات وہاں پہنچا دیتا ہے؟ اور مسئلے کا حل تلاش کرکے ہم سے پینگیں بڑھانے کا متمنی ہے ۔ہو نہ ہو،کوئی ایسی بات ان سیل فونز میں ضرور ہے کہ اسکے اطراف کی آڈیو، وڈیو مسلسل کہیں دیکھی جا رہی ہواوراس انداز میں جدیدٹیکنالوجی کو گھر کا بھیدی بنا دیا گیا ہو۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے وہ اپنے دوست کے پاس جا پہنچا اور اس سے اپنے مسئلے کے بارے میں معلومات کرنی چاہی تو حیران رہ گیا کہ اسکے دوست نے ایک نئی دنیا ہی اسکے سامنے کھول کر رکھ دی ۔ اس نے کہا کہ:
ہم دوست تھوڑے دنوں پہلے کہیں بیٹھے تھے کہ ایک ہم جماعت نے کہیں سے سنی سنائی بات سنادی ۔ وہ لفظ کیونکہ عجیب تھا اور میں نے پہلے سنا بھی نہیں تھا اس لئے اس سے پوچھ بیٹھا کہ اسکا کیا مطلب ہے ؟اس وقت تو بات2 منٹ میں ختم ہوگئی لیکن ہماری جان مصیبت میں آگئی کہ گھر پہنچتے ہی اسی لفظ کے نہ صرف معنی سے آگاہ کیا جا رہا تھا بلکہ عجیب و غریب قسم کے اشتہارات بھی آنے شروع ہوگئے ۔میری تو نیند ہی اڑ گئی۔ جیسے تیسے صبح کی اور اپنے دوست کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس جگہ رات کی جاگی حالت میں سب ہی باری باری آن پہنچے ہیں اورسب کو ایک ہی پریشانی کا سامنا ہے کہ ایسی چیزیں کیوں ہمارے پاس آرہی ہیںجس کا صرف چند منٹ کے لئے ہی ہماری باتوں میں ذکر آیا تھا اور اس کے بعد تو یوں محسوس ہونے لگا کہ کوئی ناہنجار شیطان بن کر ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے کہ اس سے جان چھڑانا آسان نہیں۔ آخر ایسی سخت نازیبا حرکت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس فیصلے تک پہنچے کہ اب سیل فون اپنے کمرے سے باہر رکھا جائے ۔ اگر ہم اس کمرے میں بیٹھیں تو اس پر کشن رکھ دیتے ہیں تاکہ فون چارج ہوتا رہے لیکن وہ ارد گرد کی آڈیو، وڈیو نہ بنا سکے۔
ہم جدید ترقی چاہتے ہیں اور اسکے لئے اسمارٹ کا لفظ اپنے ساتھ سننا چاہتے ہیں ۔اسی لئے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میںہم جدیدٹیکنا لوجی پر مبنی آلات ہم سانس کی طرح اپنی رگِ جاں کے قریب رکھتے ہیں اور اب ایسا ہی لگتا ہے کہ ہمارا گزارا اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسمارٹ فون بھی پانی، مٹی، آگ ، ہوایعنی عناصر اربع کے بعدہمارے خمیر کا ناگزیر جزو بن گیا ہے ۔ امیر ہو کہ غریب اب اسکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
جاننا چاہئے کہ انسانوں کی اکثریت برائی کوبھی بھلائی کی مانندطلب کرتی ہے ۔