Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایثار… پُرامن معاشرے کی اہم ضرورت

جب تک ایثار کی کیفیت پیدانہ ہوگی، اس وقت تک شر وفسادکا ماحول نہیں بدل سکتا  بلکہ خودغرضی کی آگ تیز ہوتی چلی جائے گی
* * *محب اللہ قاسمی۔نئی دہلی* * *

 

آج دنیا کے ماحول پرمادیت کا غلبہ ہے۔ خواہشِ نفس کی پیروی نے نیکی اوربدی کی پہچان کو بھی بدل دیاہے۔ خودغرضی نے انسانیت کی قدریں مٹادی ہیں۔معیار زندگی بلندکرنے کی ہوس نے لوگوں کوبدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھاہے۔ انس و محبت کے خمیرسے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت حیوان بن گیاہے۔ وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کیلئے بے قرارہے۔ امیرغریبوں،بے بسوںاورلاچاروں کے خون پسینے کا کار وبار کرنے لگا ہے اوراسی سے اپنی زندگی کی عالیشان عمارت کھڑی کرتاہے۔
    خودغرضی نے پوری انسانیت میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیداکردی ہے۔ اس خطرناک مرض کایہ حال ہے کہ اسے کوساجاتاہے مگراس کے علاج کی فکر نہیں ہوتی لیکن اس بیماری کا ایک یقینی علاج موجودہے جس نے ساڑھے 14سوسال قبل ایسے ہی پراگندہ ماحول کو خوشگوار فضامیں تبدیل کردیاتھا۔یعنی اسلام! اس فضا کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے
:
ہو خلق حسن یا کہ ہو ایثار وفا پیار
ہر چیز یہاں پر بہ صد انداز جلی ہے
    اسلام نے انسانوں کو بتایا کہ مخلوق اپنے خالق کا کنبہ ہے (الخلق عیال اللہ)۔ اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار ہے۔
    ایثارکی تعریف:
    انسان کا ا پنی ضرورت پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا،مثلاً بھوک کی شدت کے باوجودکسی بھوکے شخص کو اپنا کھاناکھلانا۔ یہ ایثارہے۔قرآن کریم میں اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے :اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں،حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں(الحشر9)۔
    اس آیت کی شان نزول کے ذیل میں ایک واقعہ کتب حدیث میں مذکور ہے، جوبڑا مؤثر اورسبق آموز ہے۔ اس سے ایثارکی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگایاجاسکتاہے:ایک بار ایک فاقہ زدہ شخص رسول اللہ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا۔ سوئے اتفاق سے اس وقت آپ کے گھرمیں پانی کے سواکچھ نہ تھا، اس لئے آپ نے مجلس میں موجود صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:آج کی شب کون اس مہمان کا حقِ ضیافت ادا کریگا؟  ایک انصاری صحابی جن کا نام ابوطلحہ ؓ  تھا، انھوں نے کہا :میں یا رسول اللہ !چنانچہ وہ اس کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے۔بیوی سے پوچھا: کھانے کوکچھ ہے؟ بولیں:صرف بچوں کا کھاناہے۔سیدنا طلحہ ؓ بولے: بچوں کوتوکسی طرح بہلادو، جب میں مہمان کو گھرلے آؤں تو چراغ بجھادو اور میں اس پر ظاہر کرونگا کہ میں بھی ساتھ کھارہا ہوں چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا۔صبح کو رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا :رات میں تمہارے عمل سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا(بخاری ومسلم)۔
    دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنا اور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لئے بے قرارہوجانا ہی ایثارہے ۔ اس جذبہ کو ابھارنے کے لئے نبی کریم نے ارشادفرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لئے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے(متفق علیہ)۔
    سیرت نبویؐ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم کی پوری زندگی ایثاروقربانی سے عبارت تھی۔ رحمت عالم پوری انسانیت کے لئے ہمہ وقت بے قراررہتے تھے۔ان کی نجات کی فکر آپکو بے قراررکھتی تھی۔ قرآن کہتاہے :
    ’’اچھا ، تو اے نبی()! شاید آپ() ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہیں اگر یہ اس تعلیم (قرآن) پر ایمان نہ لائیں۔‘‘(الکہف 6)۔
    آپ اصحابؓ  کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ بیت المال میں کچھ آتاتو آپ تقسیم کردیتے تھے ،اگرکچھ نہ ہوتاپھربھی سائل کوواپس نہیں کرتے ۔آپ فرماتے:جوکوئی اس کی مددکریگا میں اس کا قرض داررہوںگا۔ایک موقع پر آپ نے یہ اعلان فرمایا:جوکوئی مال واسباب چھوڑکر مریگاوہ اسکے وارث کا حق ہوگا مگرجوکوئی قرض چھوڑکرمریگا اسے میں اداکرونگا(مسلم )۔
    یہاں ٹھہرکر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں ایسے کتنے ہی مقروض ہیں جو قرض سے پریشان ہیں۔ ان کے پاس اتناپیسہ نہیں ہوتا کہ اپناقرض اداکرسکیں۔ساتھ ہی دنیا میں ایسے بے شمارمال دارلوگ ہیں جواگرتھوڑی توجہ دیں توایسے لوگوںکا مسئلہ حل ہوجائے۔یاکوئی بیت المال کا مؤثرنظم ہے تواس قرض کی ادائیگی ہوجائے۔نبی کریم کے بارے میں روایات میں آتاہے کہ اکثر فاقہ کشی کی نوبت آجاتی اور ایسا نہیں ہوتاکہ آپ نے 3 روزتک مسلسل آسودہ ہوکرکھاناکھایاہو۔
    حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:نبی کریم تادم حیات کبھی مسلسل 3 روز پیٹ بھرکرکھانانہیں کھایا،اگرہم چاہتے توخوب شکم سیر ہوسکتے تھے، لیکن ہم اپنے اوپر دوسروںکو ترجیح دیتے تھے(بیہقی شعب الایمان)۔
    متعددروایات میں ہے کہ کوئی شخص آپ سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز مانگ لیتا تو اسے خود پر ترجیح دیتے ہوئے وہ چیزاسے عنایت فرمادیتے تھے۔حضرت سہل بن سعد ؓ  فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ کے پاس ایک بُنی ہوئی چادرلے کر آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول !میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُناہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ رسول اللہ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے قبول فرمالیا، پھرآپ اسے تہ بند کے طورپر باندھ کرہمارے درمیان تشریف لائے توایک صحابیؓ نے کہا: یہ آپ مجھے پہنادیں کس قدرخوبصورت ہے یہ چادر! آپ نے فرمایا: اچھا۔پھرنبی کریم مجلس میں بیٹھ گئے ،پھرواپس گئے اورا س چادرکواتارکرلپیٹا اور اس کو اس آدمی کے پاس بھیج دیا۔ پس لوگوںنے اس سے کہا:نبی نے چادراپنی ضرورت سمجھ کر پہنی تھی لیکن تم نے اسے آپ  سے یہ مانگ لیا اورتمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کوواپس نہیں کرتے۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے یہ پہننے کیلئے نہیں مانگی ،میں نے تویہ اس لئے مانگی ہے تاکہ (آپ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی بابرکت چادر)میرا کفن بن جائے۔راوی فرماتے ہیں کہ یہ چادر اس کے کفن کے ہی کام آئی(بخاری)۔
    ایثار اوراسوۂ صحابہؓ:
    اثیارکے جذبہ کو ہم صحابہ کرام ؓ کی زندگی میں بھی بدرجہ اتم دیکھ سکتے ہیں۔انھوں نے اسے اپنی زندگی کا وصف لازم قراردیاتھا۔  حضرت ابوطلحہؓ  کی مثال اوپر گزری۔ ایک دوسراواقعہ ، جوبہت مؤثر اورسبق آموزہے ۔ بیشتر کتابوں میں اسے ایثارکے باب میں درج کیا گیاہے۔ یہ نادرمثال ہمیشہ انسان کے اندرایثار کی روح پھونکتی رہے گی۔
    جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ  ؓ ،حضرت حارث بن ہشام    ؓ    ،حضرت سہیل بن عمرو   ؓ   زخم کھا کر زمین پر گرے اور اس حالت میں حضرت عکرمہ    ؓ    نے پانی مانگا۔پانی آیاتودیکھا کہ حضرت سہیل    ؓ    پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،بولے‘‘پہلے ان کو پلاآؤ۔حضرت سہیل    ؓ    کے پاس پانی آیا تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت حارث    ؓ    کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے ،بولے ’’ان کو پلاؤ‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ گیا اورسب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دی(اسوۂ صحابہ)۔
    اگرکوئی ہم سے ہماری محبوب چیز مانگ لے توکیا ہم دے سکتے ہیں؟بسااوقات ایک چیز کئی لوگوں کوپسند ہوتی ہے ، جسے حاصل کرنا اپنا مقصدبنا لیتے ہیں ۔کبھی کبھی وہ چیزاَناکا مسئلہ بن جاتی ہے اور قتل وخوںریزی تک نوبت آجاتی ہے۔یہاں انسان کے ایثارکاامتحان ہوتاہے۔ صحابہ کے ایثار کی ایک نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ حجرۂ عائشہ    ؓ    میں اللہ کے رسول اورحضرت ابوبکر   ؓ    کی تدفین کے بعد صرف ایک قبرکی جگہ بچی تھی۔ حضرت عائشہ   ؓ     نے اسے اپنے لئے خاص کررکھاتھا، لیکن جب حضرت عمر   ؓ    نے ان سے وہ جگہ مانگ لی، تو انھوںنے ایثار سے کام لیتے ہوئے وہ جگہ ان کی تدفین کے لئے اسے دے دی۔حضرت عائشہ   ؓ    خود بیان فرماتی ہیں:میں نے خوداپنے لئے اس کو محفوظ رکھاتھا ،لیکن آج اپنے اوپرآپؓ  کو ترجیح دیتی ہوں(بخاری)۔
    حضرت عائشہ    ؓ    کا ایک اورسبق آموزواقعہ جوکہ خواتین کے لئے بے حد موثرہے، نقل کیاجاتاہے:ایک مسکین نے حضرت عائشہ    ؓ    سے کوئی چیز مانگی جبکہ آپ ؓروزے سے تھیں اورسوائے روٹی کے گھر میں کچھ نہ تھا، آپؓ نے خادمہ سے کہا کہ یہ روٹی اسی کو دیدو۔خادمہ نے کہا کہ اس کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں ، آپ افطار کریں گی؟پھربھی آپ نے یہی فرمایاکہ یہ اسے ہی دیدوچنانچہ خادمہ نے اس کو یہ روٹی دے دی۔شام کے وقت ان کے پاس ایک بکری کاپکاہواسالن ہدیہ کے طور پرآیا توسیدہ عائشہ ؓ نے اس سے فرمایا کہ اس سے کھاؤ یہ اس ٹکڑے سے بہتر ہے(بیہقی شعب الایمان ،فصل : ایثار)۔
    ایثار اسلامی معاشرے کی خصوصیت:
    جذبہ ایثار اسلامی معاشرے کی ممتاز خصوصیت تھی۔صحابہ کرام   ؓ    نے ہمیشہ دوسروںکے دکھ درد اورضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ،انھیں خود پر ترجیح دی۔اس بنا پر قرآن نے انھیں’’ رحماء  بینہم‘‘ کا اعزازبخشاہے۔ چندواقعات درج ذیل ہیں:
    ٭     ایک مرتبہ حضرت عمربن الخطاب    ؓ   نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا:ایک شخص نے ایک بکری کا سرہدیہ کے طور پر کسی کے گھربھجوایا۔جس کو دیا گیا اس نے کہا کہ اسے میرے فلاں بھائی کو دے دو کہ وہ مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہے۔ جس شخص کے پاس اسے بھجوایاگیا، اس نے اسے دوسرے کے گھربھجوادیا۔ اس طرح وہ مسلسل 7 گھروں سے منتقل ہوتا ہوا دوبارہ اس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا                                                          (بیہقی شعب الایمان ،فصل: ایثار)۔
     ٭   ایک مرتبہ حضرت عمر   ؓ   نے 400 دینار  سے بھری ہوئی تھیلی اپنے غلام کو دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح    ؓ    کے پاس لے جاؤ، پھر وہیں کچھ دیر رکے رہوتاکہ تم دیکھ سکو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟  حضرت ابوعبیدہ بن الجراح                         ؓ   نے پہلے تودعادی پھر تھیلی لی اور  اپنی باندی کو بلاکرکہا کہ اس تھیلی سے7 دینا رفلاں کو دے آ،  5 فلاں کو،حتیٰ کہ سارامال تقسیم کردیا ۔ 
    اپنے لئے کچھ نہ رکھا۔ اسی مقدار کے دینار  حضرت عمر   ؓ    نے حضرت معاذ بن جبل    ؓ    کو بھی روانہ کیے۔ انھوں نے بھی ویسا ہی کیا  جیسا  کہ حضرت ابوعبیدہ    ؓ   نے کیا  تھا۔  حضرت معاذ    ؓ     کی بیوی نے ان سے کہا  کہ بخدا ہم بھی مسکین ہیں،کچھ تو روک لیجئے۔اس وقت تھیلی میں صرف 2دیناربچے تھے سو ان کو دے دیے۔ غلام نے حکم کے مطابق آکر واقعہ کی تفصیلی خبردی تو حضرت عمر   ؓ    اس سے بے انتہا خوش ہوئے۔
    ٭  انسان کسی کو کوئی قرض دیتا ہے توپھر وہ اس کا حق ہے کہ وہ ایک وقت ِ متعینہ پر اسے وصول کرلے ۔اگر مقروض مجبوری یاتنگ دستی کی وجہ سے ادانہیں کرپارہا تو اسے مہلت دی جانی چاہیے۔ بہر صورت قرض ایک حق ہے جسے دینے والا وصول کرسکتاہے۔اگر معاف کردے تو یہ ایثار کی ایک بڑی مثال ہوگی۔ایسا ہی ایک واقعہ حضرت قیس بن سعدبن عباد   ؓ    کا ہے،جو فیاضی میں کافی مشہور تھے:جب آپ ؓ بیمار ہوئے تو لوگوںکی ایک بڑی جماعت آپ کی عیادت کو نہیں آئی ، وجہ معلوم کی گئی توپتہ چلاکہ وہ آپ سے لئے گئے قرض کی ادائی نہ ہونے کے باعث شرمندگی کے سبب نہ آسکے، جس پرحضرت قیس   ؓ نے فرمایاکہ اللہ کی رسوائی ہو ایسے مال پر جو لوگوںکوملاقات سے روک دے۔ پھرآپؓ نے یہ اعلان کروادیاکہ جن لوگوں پر ان کا قرض ہے وہ سب معاف ہے(مدارج السالکین)۔
    ایثارانفرادی     وصف:
    ایثارزندگی کے ہرشعبے میں مطلوب ہے۔اس وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ جس طرح مامورین کیلئے ضروری ہے ،اسی طرح صاحب امر کیلئے بھی ضروری ہے۔ ایک قائد بسااوقات بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ رعایا کو ایثاراورہمدردی سے کام لیناچاہیے، لیکن خود اس کا رویہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ وہ خودکسی قسم کی قربانی اورایثارکے لئے تیار نہیں ہوتا۔اس کی عملی زندگی اس کی باتوں کی تردیدکرتی ہے۔ چنانچہ اس کی بات میں کوئی تاثیرنہیں ہوتی۔دوسری طرف عوام اپنے قائدین سے ایثارکی توقع رکھتے ہیں مگر خود ان کی زندگی اس سے عاری ہوتی ہے۔
    جب تک ایثار کی کیفیت تمام افراد میں پیدانہ ہوگی، اس وقت تک شر وفسادکا ماحول نہیں بدل سکتا ،نہ بہتری کی توقع کی   جاسکتی ہے بلکہ خودغرضی کی آگ تیز ہوتی چلی جائے گی جس سے سماج جھلستارہے گا۔ایثارہی وہ پانی ہے جواس آگ کوبجھاسکتاہے۔
 

شیئر: