شیطان کا وسوسہ تمام گناہوں کی جڑ ہے،یہ وسوسہ ایسا شر ہے جو انسان کے اندر موجود ہے اور یہ اس کے اپنے اختیار سے ہے
* * *ام عدنان قمر۔ الخبر* * *
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِکِ النَّاسِ، اِِلٰـہِ النَّاسِ، مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ، الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ، مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ}۔
"(اے پیغمبر) کہہ دے میں پناہ میں آیا لوگوں کے مالک کی، لوگوں کے بادشاہ کی، لوگوں کے معبودکی، اس وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کی بدی سے، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے،(خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے۔"( الناس5-1)۔
سورۃ الناس بظاہر ایک چھو ٹی سی سورت ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی 3 صفات مذکور ہیں۔ اس میں پوری توحید آگئی ہے اور اس نے توحید کی تمام (تینوں) اقسام اور تمام نکات کو اپنے دامن میں سمو لیا ہے۔
توحیدِ ر بوبیت:
{رَبِّ النَّاس}: یہ توحیدِ ربوبیت ہے۔ اللہ رب العزت پوری کائنات کا مالک و خالق ہے اور کائنات پر اسی کا امر اور اسی کا تصرف چلتا ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، سب اسی کے حکم سے ہو رہاہے اور چونکہ یہ مقامِ پناہ ہے تو اللہ کی صفتِ ربوبیت ذکر کر دی گئی کہ جو رب الناس ہے، وہ تم کو پناہ دینے، تمہارے شر کو ختم کرنے اور تم کو آسائش، امن و سلامتی اور سکون عطا فرمانے پر قادر ہے کیونکہ وہ {رَبِّ النَّاسِ} ہے۔
توحیدِ اسما و صفات:
{مَلِکِ النَّاس} یہ توحیدِ اسما و صفات ہے کہ وہ {مَلِکِ النَّاسِ} ہے۔ تمام لوگوں کا بادشاہ بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ ’’مَلِکُ الْمُلُوُکِ۔ مَلِکُ الْاَمْلاَک‘‘ یہ اللہ کی صفت ہے ۔ دنیا کے بادشاہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں ، وہ بھی بعض وقت پناہ دیتے ہیں لیکن وہ ایک عار ضی امر ہے جبکہ آپ نے پناہ کی در خواست کی اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تو مالک ہے، احکم الحاکمین ہے، جیسا کہ سورۃ الملک،آیت1 میں ہے:
"برکتوں والی ہے، وہ ذات جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہت ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا خاص طور پر ذکر کیا تاکہ اللہ سے پناہ طلب کرنے والے مطمئن ہو جائیں کہ جس ذات کی پناہ ہم طلب کرنا چاہتے ہیں، وہ مالک ہے، وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ قیامت کا دن ہو گا، یہ زمین اور آسمان اللہ کی انگلیوں پر اچھل رہے ہوں گے۔ اللہ ان کو ہلا رہا ہوگا اور فرما رہا ہوگا:
"زمین کے بادشاہ کہاں ہیں،بڑے بڑے سر کش کہاں ہیں،تکبر کر نے والے کہاں ہیں؟"
اللہ تعالیٰ تو زبر دستوں کا زبر دست اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اے اللہ کی پناہ طلب کرنے والے! جس ذات کی تو پناہ طلب کرنا چاہتا ہے وہ {مَلِکِ النَّاس} ہے۔ وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ کُل کائنات کی بادشاہت اور حکومت اس اللہ کے ہاتھ میں ہے، تو وہی پناہ دے گا، لہٰذا اسی سے پناہ طلب کر، وہی پناہ دے گا، پھر دنیا کی کوئی طاقت کوئی شر کوئی فتنہ تمھیں نقصان نہیں دے سکے گا۔
توحید الوہیت و عبادت:
{اِلٰہِ النَّاس} وہ تمام لوگوں کا معبود ہے۔ یہ توحیدِ الوہیت یا توحیدِ عبادت ہے، اس کا خالق ومالک ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے کیونکہ جو خالق ہے وہی معبود ہوتا ہے۔ سورۃ البقرہ ،آیت21 میں ارشادِ الٰہی ہے:
"اے لوگو! عبادت کرو اُس رب کی جو تمہارا خالق ہے۔"
وہ خالق ہے، دوسرا کوئی خالق نہیں تو خالق ہی عبادت کے لائق ہوتا ہے اور ہر قسم کی عبادت بھی اسی کیلئے ہے۔ ان عبادات میں سے ایک عبادت ’’استعاذہ‘‘ بھی ہے، پناہ مانگنے کی عبادت۔ اللہ کی پناہ کی طلب کرو، و ہی پناہ دینے والا ’’مستعاذ بہٖ‘‘ (جس کی پناہ مانگی جا ئے) ہے۔یہاں مستعاذ منہ (جس سے پناہ مانگی جائے) کیا ہے؟ مستعاذ منہ {شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ}ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
{ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ، الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ، مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ}
"اس وسوسے ڈالنے والے چھپ جانے والے کی بدی سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، جنوں اور انسانوں سے۔"
سورہ الفلق اور الناس کا موازنہ:
دنیا میں شر کی 2ہی بڑی قسمیں ہیں۔ ایک ذنوب اور معا صی کا شر، دوسرا مصائب اور تکالیف کا شر۔ سورۃ الفلق میں مصائب اور تکالیف کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، یعنی جنّ، جادو، نظرِبد اور ہر قسم کے شر سے اور سورۃ الناس میں ذنوب اور معاصی کے شر یعنی گناہوں اور نافرمانیوں کے شر سے پناہ طلب کی گئی ہے جس کا اصل ہمیشہ شیطان کا وسوسہ ہوتا ہے لیکن انسان کو اس کے اثرات روکنے کا اختیار حاصل ہے اور آدمی اس پر غالب آسکتا ہے۔
وسوسہ کیا ہے؟:
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ’’وسواس‘‘ کے متعلق بتلایاہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے، شیطان اس کو چوکا لگاتا ہے۔ اس وقت اگر وہاں اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ بھاگ جاتا ہے، ورنہ بچے کے دل پر جم جا تا ہے۔شیطان نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے جس کو شیطانی وسوسہ کہا جاتا ہے۔شیطان کا وسوسہ تمام گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جڑ ہے اوریہ وسوسہ ایک ایسا شر ہے جو خود انسان کے اندر موجود ہے اور اس کا تعلق انسان کے اپنے اختیار سے ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے کیونکہ شیطان کا وسوسہ اس وقت تک کچھ بھی شر نہیں پیدا کرتا جب تک آدمی خود اس کو قبول نہ کرے اور اس پر عمل پیرا نہ ہو۔ سورہ ابراہیم ،آیت22 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "(شیطان کا قول ہے) اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا، ہاں میں نے تمھیں (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بے دلیل) میرا کہا مان لیا، پس (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔"
شیطان کے د وسرے شر:
وہ چور بھی ہے اور لوگوں کے مال چراتا ہے، وہ اس طرح کہ جس کھا نے یا پینے کی چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ ذکر کیا جائے، اس سے اپنا حصہ چرا لینے میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے، اسی طرح جس گھر میں لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوں، وہ اس گھر میں شب باش ہوتا ہے اور اپنے سا تھیوں کو کہتا ہے: آجاؤ یہاں کھانا بھی ملے گا اور رات گزارنے کی جگہ بھی۔
ایک شر اُس کا یہ ہے کہ جس کے دل میں وسوسہ ڈال کر اس سے گناہ کراتا ہے، پھر خود ہی اس کا پردہ فاش کر کے لوگوں میں اس کو ذلیل و رسوا اور بدنام کرتا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص پوشیدہ طور پر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جس سے کوئی بھی آگا ہ نہیں ہوتا لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسرے دن اس کی خبر چاروں طرف پھیل گئی ہے اور لوگوں کا موضوعِ سخن اسی کا گناہ ہے۔ یہ تمام شیطان کی کارستانی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ستار ہے، اپنے بندے کے گناہوں اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے لیکن شیطان جو اس کا دشمن ہے، اس کو ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے، بہت سے لوگ اس نکتہ سے بے خبر ہیں۔
شیطان کا ایک شر یہ بھی ہے کہ انسان کوئی نیکی کا کام کرنا چاہے تو وہ اس کا راستہ روکتا ہے اور اس کو نیکی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔دنیا میں جتنی بھی نیکیاں ہیں، ہر ایک نیکی کے راستے پر شیطان بیٹھا راستہ روک رہا ہے اور اسکی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس راستے پر کوئی نہ چلے اور اگر کوئی اسکی مخالفت کرکے چل پڑے تو وہ رہزن کی طرح اس کو تشویش میں ڈال کر اور اسکے سامنے ہر قسم کی رکاوٹ لا کر اسے آخر تک پہنچنے نہیں دیتا لیکن اگر کوئی خوش قسمت اور باہمت انسان نیکی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کو ایسی باتوں پر آمادہ کرنے میں کوشاں رہتا ہے، جس سے اس کا وہ عمل برباد ہو جائے، کیونکہ اس نے قسمیں کھا کر کہا تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اس طرح ہے:
"یقینا میں ان کو گمر اہ کرنے کے لیے تیرے صراطِ مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا اور پھر ان کا راستہ روکنے کے لیے ان کے آگے کی طرف سے اور ان کے پیچھے کی طرف سے اور ان کی دائیں جانب سے آکر اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کروں گا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تو ان میں سے اکثر کو نا شکر گزار پائے گا۔"(الاعراف 17-15)۔
شیطان کا ایک شر یہ بھی ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو وہ اس کی گدی پر3 گرہیں لگا دیتا ہے جو اسکے تہجد کے لیے اٹھنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہ کا فرمان ہے:
"شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات کو سوتے وقت 3گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ فسوں بھی پھونک دیتا ہے کہ سو جا، ابھی رات بہت باقی ہے، پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جا تی ہے، پھر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق چوبند اور خوش مزاج رہتا ہے ورنہ بد باطن رہتا ہے۔"
بندہ سو رہا ہے اور اس کا ابدی دشمن اس کو گمراہ کرنے کے پروگرام بنا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے دین سے گمراہ و غافل کردے۔ جو بندہ اٹھا، وضو کیا اور نماز پڑھی تو وہ نشیط اور چاق و چوبند ہوگیا اور اگر وہ نہ اٹھا، نہ اللہ کا ذکر کیا، نہ وضو کیا اور نہ نماز پڑھی، ویسے ہی نہایا، خوشبو لگائی اور صاف ستھرا بن کر دفتر کے لیے گاڑی میں جا رہا ہے تو ایسے آدمی کے لیے اللہ کے نبی اقدسکا فرمان ہے:
"وہ کسلان و سست ہے اور خبیث النفس بھی۔"
انسان سو رہا ہوتا ہے اور دشمن اپنی کارروائیاں کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ اکبر! اس نے وسوسے کے ذریعے ہمارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ صحیح بخاری و مسلم، سنن ترمذی و نسائی اور مسند احمد کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ قیا مت کے دن اللہ فرمائے گا:
"نکال لو جہنم کا گروہ۔"
یعنی جہنمیوں کو نکال کر جہنم میں ڈال دو 'پو چھا جا ئے گاکہ اے اللہ! جہنم کی جماعت کہاں ہے؟ جہنم کی فو ج کہاں ہے ؟ تو اللہ فرما ئے گا : ہزار میں سے 999جہنمی ہیں (اور صرف ایک جنتی)۔
حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈلوانا بھی اسی شیطان کی کارستانی تھی کہ اہلِ بابل کو اس پر آمادہ کیا کہ رئیس الموحدین ابو الانبیا حضرت خلیل الرحمن علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیں۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کی حمایت کی اور کافروں کے شر سے انھیں محفوظ رکھا اور فرمایا:
"اے آگ! ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی اور سلا متی کا موجب ہوجا۔"(الانبیاء29)۔
اسی طرح شیطان نے یہودیوں کو ورغلایا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کے لیے جدوجہد کریں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے فضل وکرم سے ان کے شر سے محفوظ کر لیا اور فرمایا:
"انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو صلیب دینے میں کامیاب ہوئے بلکہ ایک شبہے میں ڈال دیے گئے۔"(النساء157)۔
یہ شیطان ہی کے کر تو ت تھے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریاعلیہم السلام کو کا فروں کے ہاتھوں شہید کرایا۔ فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے بلکہ زمین میں سخت فساد پھیلانے اور غریبوں پر مظالم ڈھانے پر آمادہ کیا اور ہمارے نبی کریم کے خلاف کافروں کو اکسایا کہ ان کے قتل کی سازش کریں اور آپ کی رسالت کو ناکام بنانے کے لیے آپ کے ساتھ لڑائیاں لڑیں، لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ان 2سورتوں (معوذتین) کی تلاوت کے ذریعے شیطان کے وسواس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔ رسول اللہ کا فرمان ہے:
"شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح جاتاہے۔"
یہ انسان کو ورغلانے کی پوری پوری کو شش کرتا ہے، لہٰذا اس سے تحفظ کے لیے اس حارس کو اپنایئے جو شیطان کے وسواس سے بندوں کو بچا سکے۔
شیطانی شر کی اقسام:
اگرچہ ہر قسم کا شر جو دنیا میں موجود ہے، اس کی ابتدا شیطان سے ہے، اس لیے شر کی قسموں کا شمار کرنا قدرے دشوار ہے لیکن ان میں سے 6 بڑی بڑی قسموں کا ہم مختصر ذکر کر یں گے اور وہ ہمیشہ انسان کو انہی میں سے کسی ایک میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کفر و شرک:
سب سے بڑا گناہ شرک و کفر ہے، جس کا نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی ہوتی ہے، اس کی عقوبت آخرت میں ابدی جہنم ہے۔ شیطان سب سے پہلے انسان کو اسی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔
بدعت:
اگر پہلی قسم میں وہ کامیاب نہ ہو تو پھر وہ آدمی کو بدعت کی طرف بلاتا ہے جس کی بنیاد مخالفتِ رسولپر ہے، اس لیے اس کا درجہ شرک اور کفر کے قریب ہے، لہٰذا بدعت کی طرف بلانا شیطانِ لعین کا مرغوب اور پسندیدہ مشغلہ ہے اور جب اس کوشش میں وہ کامیاب ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے خلفا کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ کر لیا ہے۔
کبا ئر:
اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے سنت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشی ہو تو شیطان کا تیسرا داؤ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو کبائر کے ارتکاب پر آمادہ اور اس میں مبتلا کر دے اور اگر وہ شخص عالم ہے اور لوگ اس کو قابلِ اقتدا سمجھتے ہیں تو شیطانِ لعین کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو پھسلادے تاکہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اس کے فیضِ صحبت سے جو تھوڑا بہت فائدہ ہو رہا تھا، اس کا دروازہ بند ہوجائے۔ جب وہ بدقسمتی سے گناہ کر بیٹھتا ہے تو پھر اس (شیطان) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کو لوگوں میں شہرت دے اور عوام میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی جو ابلیس کے نائب بن کر اس عالِم کی لغزش کو مشہور کرتے پھرتے ہیں۔
صغائر:
اگر شیطان کو اس کو شش میں بھی مایو سی ہو اور وہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر بھی کسی کو مائل نہ کر سکے تو وہ صغائر گناہ کرانے پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ صغائر بھی جمع ہو کر کبیرہ کی طرح انسان کی ہلاکت کا باعث ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا ہے:
"حقیر گناہوں سے اپنے آپ کو بچا ؤ کیو نکہ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی قوم بیابان میں اتر پڑے اور ان میں سے ہر ایک جا کر جنگل سے ایک ایک لکڑی کا ٹکڑا اُٹھا لائے، یہ ٹکڑے جمع کرکے ایک بڑی آگ مشتعل کی جا سکتی ہے۔"( یہ حدیث بالمعنی بیان کی گئی ہے)۔
(جاری ہے)