Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زینب:گلشن سے نوچا ہوا پھول، سارے وطن کو سوگوار کر گیا

سیمیں کرن۔ فیصل آباد
زینب جبر وظلم کیخلاف ایک استعارہ ہے ۔ وہ ننھی معصوم پری جوبیداری و بے بسی کی ردا لہو رنگ کر گئی ۔اسکے خون ناحق کو، اس پہ ہوئے ظلم و ستم کو ہر حساس وجود نے اپنے دل پہ ایک زخم کی صورت محسوس کیا۔وہ گلشن سے نوچا ہوا وہ پھول تھی جو سارے چمن، سارے وطن کو سوگوار کر گیا۔
ایسے اندوہناک حادثے اس سے پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک خاتون کا لباس تار تار کرکے گلیوں میں گھماکر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ طوبیٰ، عمران، طیبہ اور پھر فیصل آباد کا صفیان۔ یہ سب ظلم و ستم اور وحشت کی داستانیں ہیں، وہ داستانیں جن کا شکار معصوم ، نوعمر بچے ہیں مگر زینب کے حادثے نے وہ گونج پیدا کی کہ اسے دور تک سنا گیا ہے۔
زیادتی اورقتل کایہ افسوسناک سانحہ تو وقوع پذیر ہوچکا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک بیداری لہر ملک کے طول و عرض میں محسوس کی گئی ہے۔مختلف این جی اوز ، ادبائ، دانشور، سیاستداں، سب نے ہی ہر جگہ اس مسئلے کو بقدر ہمت اوست اٹھایا۔
زینب کے واقعے کے بعدخصوصی مہم بھی شروع کی گئی جس میں بچوں کو آگاہی فراہم کی گئی۔ والدین اور اساتذہ پر موثر کردار اداکرنے پر زور دیاگیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ والدین اور اساتذہ ہی وہ ہستیاں ہیں جو بچوں کو ان کے ا رد گرد منڈلاتے خطرات سے پوری طرح آگہ کر سکتے ہیں اور انہیں ان کے خلاف تیار کرسکتے ہیں۔
جہاں یہ ہولناک سانحے اوروحشیانہ قتل کی وارداتیں زیادہ ہونے لگیں وہاںان کے تدارک کے علاوہ یہ تحقیق ازبس ضروری ہوجاتی ہے کہ ان محرکات و عوامل پر غور کیا جائے جن کے باعث بچوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم اور ان معصوموں کا خون پینے والی ایسی بلائیں اور عفریت جنم لیتے ہیں۔ ان وجوہ کو جانا جائے کہ معاشرے میں ایسے سانحات کیونکر رونما ہوتے ہیں ۔یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایسے جرائم کے سماجی اور نفسیاتی محرکات کیا ہیں؟
مختلف طبقہ ہائے فکر اور نظریات کے حامل لوگوں نے اپنے اپنے خیالات پیش کئے بلکہ دل کی بھڑاس نکالی۔ بعض نے کہا کہ یہ سب مذہب سے دوری اور بے راہ روی و فحاشی کا نتیجہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے جرائم میں کسی خاص طبقے کو ملوث قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ معاشرے کے کسی بھی طبقے میں ایسے ناسور موجود ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغرب بھی ا یسے حادثات سے پاک نہیں جہاں فرد کو مکمل آزادی حاصل ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے اندوہناک سانحات پر بعض سیاستدان ایسے بھی ہیں جو سیاسی دکان چمکانے سے باز نہیں آتے ۔ انہوں نے زینب کے قتل پر بھی سیاست کی ۔ اس معصوم کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کو بیان کرنے کی بجائے سیاسی زاویوں کو مدنظر رکھ کر بیان داغے گئے ۔ ان بیانات سے سب کو گھن آئی۔ایسا کوئی بھی موقع نہیں کہ ہو جب صاحبان اختیار اور حزب اختلاف کے بعض نمائندگان و کارکنان اس پر ایسے نہ جھپٹیں جیسے مکھی مٹھائی کی پلیٹ پر جھپٹتی ہے۔ یہاں تو سینے کا کھلا زخم تھا مگر یہ بھی شاید مکھی کے مزاج میں ہے کہ وہ کھلے زخم کوبھی نہیں چھوڑتی۔
اپنے نمبر بنانے کا یہ عالم ہے کہ ایک آڈیو میسج کئی بار موصول ہوچکا ہے جو بظاہر ایک لیک ہو جانے والی ٹیلیفون کال ہے مگر یہ مرے کو سو دُرے مارنے کے مترادف ہے۔عوام جوپہلے ہی غم و غصے اور خوف کا شکارہیں ان میں واہموں کی فصل کاشت کرکے یوں لگتا ہے کہ سیاسی نظام کو پیٹنے یا پھر اس دسترخوان کو بہت مختصر کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے ملک میں ہی نہیں دیگر ممالک میں بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ ایسے جرائم کئے جاتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ لے دے کر سارا ہدف سارا ملبہ اور احتساب یا پھندا صرف ایک رخ پر کیوں ہے؟اس سانحے پر مختلف مصنفوں کی تحریریں نظر سے گزریں، جہاں دکھ تھے، آنسو تھے، زینب کی معصومیت پر بہنے والے آنسوﺅں کی لڑیاں تھیں، بچوں کی تربیت کے حوالے سے تجاویز تھیں، تجزیئے تھے۔ان تجزیوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر ایک بہت اہم بات کہتے ہیں۔ بقول ان کے ، ایسے لڑکے یا مرد عزت نفس کے بحران کا شکار ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی عزت نہیں کرتا وہ دوسروں کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتا۔
یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے، ایسے لوگ جو ذہنی پستی کی اس انتہاء پر پہنچ جاتے ہیں وہ واقعی کسی ذہنی بحران سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ لوگ انسان کہلانے کے لائق تو نہیںہوتے مگر کیا کیجئے صاحب جانوروں سے متعلق بھی ایسی خبریں کبھی جنگلوں سے نہیں ملیں۔
بعض نہایت ”موقر“سجھائی دینے والی ہستیاں یہ کہتی سنائی دے رہی ہیں کہ ایسے تمام لوگ کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہوتے ہیں تو بصد احترام مجھے اختلاف کی اجازت دیجئے۔ سچ یہ ہے کہ زیادتی اور قتل کے ایسے گھناﺅنے جرائم بہت کم یعنی ایک یا دو فیصدہی سامنے لائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی آزادانہ فورم تشکیل دیا جائے جہاں خواتین بلا جھجک اوربلا خوفِ رسوائی بات کرسکیں تو آپکے سامنے اس معاشرے میں پلنے والے بعض ایسے مکروہ چہرے بے نقاب ہو جائیں گے جنہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین قرار پائے گا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کمزورکو دیکھ کر بپھر جاتے ہیں۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بسوں، ویگنوں، پبلک ٹرانسپورٹ میںبھی ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ گھر کی چہار دیواریوں میں بھی قریبی عزیز اپنے ہی اعزہ کے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔یہ واقعات ہوتے آئے ہیں ، ہورہے ہیں اور ہم ان کی پردہ پوشی کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے واقعات سے نگاہ چراکرخاموشی اختیار کرلی جاتی ہے مگر یہ خاموشی آخر کب تک؟
ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے صحت مند مکالمے کو فروغ دینا ہوگا جس سے ہمارے مروجہ عزت کے معیار بدل جائیں۔ وہ جو ظلم کا شکار ہو ،وہی مجرم نہ ٹھہرے بلکہ وہ لوگ جو انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہیں وہی قہر و غضب کا نشانہ بنیں۔ اس حوالے سے نہ صرف صحت مند مکالمہ بلکہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے ۔ جب ایسے مجرم قانون کی گرفت سے بچ نہ پائیں، سخت سزائیں انکا مقدر ٹھہریں تو ان جرائم کو کنٹرول کرنا ممکن ہو جائے گا ۔
سچ یہ ہے کہ سزاﺅں کا خوف ہی جرائم کی بیخ کنی کا موثر ہتھیار ہے ۔اس کے بعد سب سے اہم کردار والدین اور اساتذہ کا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بچے کو آسان شکارنہ بنائیں، اسکے معاملے میں کسی پر اعتبار مت کریں۔ یہ سوچ کر کہ شکاری آپ کے کہیں بہت آس پاس ہوسکتا ہے،ان کو آواز بلند کرنا سکھائیں۔ کسی خطرے کی صورت میں شور مچانا سکھائیں۔ والدین کو اس خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کے بچہ کے اردگرد کیسا ماحول ہے ۔ وہ میڈیا کا کیسا استعمال کر رہا ہے ، کیا د یکھ رہا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی ملک حالت جنگ میں ہوتا ہے تو گلی محلوں کے نوجوان گشت کرنے اورنگرانی کرنے کے لئے رضاکار کمیٹیاں بنالیتے ہیں۔ انہی خطوط پر اپنے گلی محلوں، کالونیوں میں اس قسم کی رضا کار کمیٹیوں کا اہتمام کیجئے۔ اپنے بچوں اور نوجوانوں پر نظر رکھئے، ورنہ ہم زینب جیسی بیٹیوں کے سامنے شرمندہ ہی رہیں گے۔ 
 

شیئر: