شہزاد اعظم۔جدہ
موٹر سائیکل پرمیں ا پنی ”عروس“ کے ساتھ براجمان تھا،عروس البلاد کی سب سے موقر رہ گزر”شاہراہِ فیصل“ پر موٹرسائیکل فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔وہ اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھالے جا رہی تھی،اس کی نسوانی آواز میری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی ، ایسا لگ رہا تھا جیسے کائنات کی وسعتیں اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہیںکہ ”میں تیرے لئے بنائی گئی ہوں تاکہ تو مجھ سے سکون حاصل کرے۔“
عجیب سفر تھا، کٹے جا رہا تھاحالانکہ دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ وقت تھم جائے اور مسافت کبھی ختم نہ ہو۔”چند لمحے“ تونہی گزرے اور قائد آباد آگیا، غزل نے کہا کہ پتا ہے ، ایندھن کے بغیر گاڑی نہیں چلتی اور کچھ کھائے بِنا”آڑی“ نہیں چلتی۔ آپ کی ”آڑی“ کو بھوک لگی ہے۔ میں نے قائد آباد سے ”یو ٹرن“ لیا اور کہا کہ ”کلفٹن“ پہنچ کرمیں اپنی غزل کو عشائیہ دوں گا۔اس نے انتہائی تفاخر سے جواب دیا ”آفر ایکسیپٹڈ“اور پھر گویا ہوئی کہ آپ کی سہیلی ، پوچھ رہی ہے ایک پہیلی، جواب دیں گے؟ میں نے کہا ”ارشاد“، کہنے لگی، شاعرانہ طرز کا استفسار ہے، ذرا بتائیے یہ کیا نام ہے:
”ہاف آ سرکل، فل آ سرکل، ہاف آ سرکل اے
ہاف آ سرکل، فل آ سرکل،رائٹ اینگل اے“
اسے بھی پڑھئے: یہ جمال، وہ کمال، یہ حقیقت، وہ مثال
میں نے کہا کہ یہ تو انگریزی میں ہے،اس لئے پہیلی تو نہیں ہوئی، یہ تو ”رِڈل“ کہلائے گی۔اس نے کہا ”بہانے بنائیں اور نہ باتیں، پہیلی نہیں بوجھنی تو ”رڈل“ سمجھ کر ہی جواب دے دیجئے اور یا سادگی سے اپنی ”لا علمی“ کا اقرار کر لیجئے۔ سارے راستے غزل نے مجھے اس پہیلی میں الجھائے رکھا اور بالآخر کہنے لگی کہ مجھے کلاس ون کے ایک بچے نے شرمندہ کر دیا تھا، آپ بھی میری طرح پہلے شرمندہ ہوں تو میں جواب بتاﺅں گی۔میں نے کہا میںشرمندہ ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ اس پہیلی کا جواب ہے”COCA...COLA“ میں نے کہا کہ یہ کیا پہیلی ہوئی، وہ بولی جب بھوک لگ رہی ہو تو ایسی پہیلیاں ہی سوجھتی ہیں۔”سہیلی کی پہیلی“ پر گفتگو ختم ہوئی تو کلفٹن آگیا۔ ہم ایک ہوٹل میں گئے ، فیملی ہال کی ایک میز پر جا بیٹھے،شمع کی مدھم روشنی میں عشائیہ تناول کیااور پھر ساحل کی طرف نکل گئے۔
اسے بھی پڑھئے:استعارے کا حقیقت میں بدل جانا ہے یہ
رات کے 11بج چکے تھے۔سمندر سے آنے والی ہوا اپنے غیر مرئی وجود کا احساس دلا رہی تھی۔چاند کی چاندنی سمندر اورساحل کی ریت پر چاندی کی طرح جھلملا رہی تھی۔میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے چلتے اسے نجانے کیا خیال آیا، کہنے لگی ”سنئے! وقت اور ماحول کو مدنظر رکھ کر چند اشعار سنا کر اپنی غزل کی خواہش پوری کیجئے“، میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ کہنے لگی ”جب پیٹ بھرا ہو تو ایسی باتیں ہی سوجھتی ہیں۔“ ہم نے دائیں بائیں دیکھا، دور دور کوئی نہیں تھا، میں نے جواب دینے کے لئے ”ترکی بہ ترکی “ ہونے کا ارادہ کیا، غزل کے سامنے آکر اُلٹے قدموں چلنا شروع کیا اورکسی موسیقی کے بغیر ہی بآوازِ بلند اک نغمے کے بول سنائے کہ:
چاندنی میں جسے لہروں پہ مچلتے دیکھا
چودھویں رات میں بادل سے نکلتے دیکھا
جس کی انگڑائی تھی، بجھتے ہوئے طوفانوں میں
جس کو کلیوں کے کلیجے پہ ٹہلتے دیکھا
تم وہی ہو لو تمہیں، آج بتا دیتے ہیں
تم وہی ہو....
اس مرحلے پر میں سوچ رہا تھا کہ غزل کوئی تعریفی جملہ کہے گی مگر اس نے تو تالیاں بجا کر نعرے کی شکل میں آواز لگانی شروع کر دی ”چِیٹنگ، چِیٹنگ“، میں نے دریافت کیا کہ ”چیٹنگ“ کیوں؟ کہنے لگی کہ اپنی غزل کے لئے کسی اور کے اشعارگنگنانا یہ چِیٹنگ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟یہ کہہ کر وہ خوب ہنسی پھر اچانک اُچک اُچک کر قدم رکھنے لگی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلے ہوا غزل سے اٹکھیلیاں کر رہی تھی اور اب غزل نے ہوا کو اس کی اٹکھیلیوں کا جواب دینا شروع کیا ہے۔ وہ گویا ہوئی:
یہ بتاﺅمرے شاعر کہ کبھی میرے سوا
کوئی صورت پسِ تخئیل نہ دیکھی تم نے
(باقی آئندہ)