Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمانوں پر القدس جانے کی پابندی

بکرعویضہ ۔ الشرق الاوسط
فلسطینی صدر محمود عباس نے گزشتہ ہفتے بڑا اہم تاریخی بیان دیا۔انہوں نے کہا”چلیں ....القدس چلیں“۔سب سے پہلے اس امر پر اتفاق رائے ضروری ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ اور القیامہ گرجا گھر کی زیارت کیلئے جانا بذات خود مشرقی القدس میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کی مزاحمت کرنے والے القدس کے باشندوں کی سیاسی ، معاشی اور معنوی مدد ہوگی۔ اس کی بدولت بیت المقدس پر مسلط ناجائز قبضے کی دیوار توڑنے کی راہ ہموار ہوگی۔دوسری بات یہ ہے کہ فلسطینی صدر نے چلو.... القدس چلو اپیل بین الاقوامی عرب اجلاس کے موقع پر جاری کی جہاں مسلم اور عیسائی مذہبی پیشوا موجود تھے۔ اعلیٰ درجے کے تھے ۔ جامع ازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب پیش پیش تھے۔ سیاستدانوں نے اس موقع پر موجود شخصیات کی خاموش ترجمانی جسمانی زبان کے اشاروں ، کنایوں کی صورت میں کرانے کی بھی کوشش کی ہے۔ سیاستداں جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں ان کے وظیفہ خوار صحافی بھی خاص تناظر میں اجلاس اور کانفرنس کی ترجمانی کا کوئی نہ کوئی چکر چلا دیتے ہیں اور اصل مسئلہ کو غائب کرنے کا کھیل ضرور کھیل لیتے ہیں۔اس موقع پر بھی اس طرح کی کوشش تعجب انگیز نہیں ۔
میرا خیال یہ ہے کہ جس موقع پر فلسطینی صدر نے مذکورہ اپیل جاری کی، اس حوالے سے بس اتنی بات اہم ہے کہ انہوں نے مسلم اور عیسائی مذہبی پیشواﺅں کی موجود گی میں وہ بات کہی ، وہاں موجود تمام فریق ان کی دعوت سے متفق تھے۔ یہی بات شیخ الازہر اوردیگر مذہبی پیشواﺅں اور سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ناجائز قبضے میں موجود مشرقی بیت المقدس کے اطراف قائم اس دیوار کو توڑنے کی کوشش کی ہے جس میں قابض اسرائیلی حکام نے مقدس شہر کو بند کررکھا ہے۔ 1967ءسے القدس اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ تب سے ابتک مسلمان اور عیسائی عرب اس کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں۔اگر مسلمان اور عیسائی فلسطینی صدر کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مشرقی القدس کی زیارت کیلئے جائیں گے تو قابض اسرائیلی حکام نے مقدس شہر پر جو بندش لگا رکھی ہے وہ ٹوٹے گی۔صورتحال یکسر بدلے گی۔ 
بعض لوگ مشرقی القدس کی زیارت کی مخالفت اس بنیاد پر کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں کہ ایسا کرنے سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کا تاثر جائیگا۔ بعض لوگ اس کی مخالفت کی دلیل یہ پیش کرکے دے رہے ہیں کہ اگرمسلمان اور عیسائی بیت المقدس جاتے ہیں تو اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ بے معنی ہوجائیگااور اسرائیل کے ساتھ اقتصادی راہ بحال ہونے کی راہ ہموار ہوجائیگی۔ میرا اُن سے یہی کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ اس قسم کے اقدام سے بیت المقدس کے فلسطینیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ جہاں تک اقتصادی تعلقات استوار ہونے کی بات ہے تو محض آنے جانے سے ایسی کوئی بات نہیں ہوگی۔موجودہ اقتصادی بائیکاٹ کا بھاری نقصان بیت المقدس کے شہریوں کو ہورہا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ان کی تعلیم، انکے روزگار اور ان کے رہن سہن پر پابندیاں عائد کئے ہوئے ہے اور دوسری جانب دنیا بھر کے مسلمان اور عیسائی بیت المقدس کے بائیکاٹ کے نام پر خود ان پر پابندیاں عائد کئے ہوئے ہیں۔میرا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر ہم ایک لمحے کیلئے اقتصادی نکتے کو ایک طرف رکھ دیں اور یہ دیکھیں کہ اگر مسلمان اور عیسائی قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی زیارت کیلئے جائیںگے تو ایسی حالت میں کیا بیت المقدس میں موجود بھائیوں کے ساتھ قرابت کے رشتے مضبوط نہیں ہونگے؟ کیا اس کی بدولت مسلمان اپنے تاریخی ورثے سے پائے جانے والے روحانی لگاﺅکو تازہ نہیں کرینگے؟
یہ درست ہے کہ اسرائیل کے سیاحتی ماہرین پوری دنیا میں اپنے یہاں سیاحت کی اسکیموں کا پرچار کررہے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے یہاں موجود اسلامی اور عیسائی مقاماتِ مقدسہ کو بھی یہودی مقامات مقدسہ کی فہرست میں شامل کرکے سیاحت کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔پوری دنیا سے جانے والے سیاح تل ابیب کی بلند وبالا فلک بوس عمارتیں بھی دیکھتے ہیں اور القدس کے پرانے بازار بھی۔بیرونی دنیا کے لوگ القدس جاتے ہیں تو وہاں وہ ایک طرف ہزاروں سال پرانے تاریخی آثار بھی دیکھیں گے اور جدید دور کے نمونے بھی ۔ خارجی دنیا کے سیاح امن و امان کے مسائل کے باوجود القدس پہنچ رہے ہیں۔ 
مسلمانوں اور عربوں کو ایسا کرنے سے آخر کیوں روکا جارہا ہے؟ مشرقی القدس بالآخر ان شاءاللہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنے گا، اسے دیکھنے پر پابندی کیوں؟ہمارے سامنے ایک طرف تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا خدشہ سوار ہے تو دوسری جانب بیت المقدس کے شہریوں کی ثابت قدمی میں تعاون دینے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس پہلوکااحترام نہیں کررہا ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: