Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عصری اسلوب میں دینی دعوت کا پیغام رکاوٹوں کا شکار کیوں؟

محمد شومان  - - - -الحیاۃ
    3برس قبل مصری صدر عبدالفتاح سیسی نے دینی دعوت کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کی جرأت مندانہ اپیل کی تھی۔ انہوں نے ایک مذہبی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہمیں دینی دعوت کے سلسلے میں عصری انقلابی انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ نیا انداز عصر حاضر سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے‘‘۔ مصری صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ دین میں نہیں بلکہ فکر و نظرمیں ہے۔ انہوں نے شیخ الازہر مصر کے وزیر اوقاف اور مفتی اعلیٰ سے کہا تھا کہ وہ اسلامی تصورات کی تصحیح کرنے والے دینی پیغام کے تشکیلی عناصر جلد از جلد ترتیب دیدیں۔
    مصری صدر کی مذکورہ اپیل سیاسی اور سماجی ضرورتوں کا نتیجہ تھیں۔ انتہا پسند اور تکفیری اسلامی جماعتوں نے دین سے ناجائز فائدہ اٹھا کر سماجی اور سیاسی مسائل پیدا کررکھے ہیں۔ یہ جماعتیں دین کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ دین کے جوہر کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں،اسلام سے متعلق مغالطہ آمیز بعض تصورات کو اپنے افکار کی ترویج اوراسلام کی حقیقت کا حقیقی شعور نہ رکھنے والے نئے عناصر کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ وہ روا داری اور پرامن بقائے باہم کے علمبردار مذہب کو منفی جہت دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ جماعتیں دین کے جوہر سے ناواقف عناصر کو معاشرے کی تکفیر ،قتل و غارتگری اور دہشتگردی کی سرگرمیوں میں آلہ کار بنائے ہوئے ہیں۔
    حقائق بتاتے ہیں کہ تمام مذاہب کے پیرو کاروں نے انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات کبھی نہ کبھی اختیار کئے۔ اغیار کو کافر قرار دینے ،ان سے لڑنے، ان کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنے اور انکے خلاف نفرت اور عداوت کے پرچار میں دین کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ صلیبی جنگیں اوراستعماری تحریک اس کا ٹھوس ثبوت ہیں۔ ان دونوں تحریکوں نے عیسائی مذہب کو اپنے جرائم کا جواز پیش کرنے کیلئے خوب اچھی طریقے سے استعمال کیا۔ انکی ان سرگرمیوں سے محبت، روا داری اورمساوات کا علمبردار مذہب عیسائیت بدنام ہوا۔آگے چل کر اس قسم کی سرگرمیوں پر نظرثانی کی گئی۔ نکتہ چینیاں ہوئیں بالاخر عیسائیت کو اس کی حقیقی روح کی طرف واپس لایا گیا۔ اسی تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام کی نام لیوا بعض جماعتوں کے تصرفات پر نظرثانی اور نکتہ چینی کی ضرورت ہے۔بہت سارے دانشوروں اور اسکالروں نیز عبدالفتاح السیسی اور عرب و مسلم رہنمائوں نے دینی دعوت کو عصری اسلوب میں پیش کرنے کی دعوت کی تائید و حمایت کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعوت اپنی جگہ پر متعدد وجوہ کی بنا پر ضروری ہے۔ ایک طرف تو انتہا پسند اور دہشتگردی کی علمبردار جماعتوں سے نمٹنے کیلئے بھی عصری اسلوب میں دینی دعوت کا عَلم بلند کرنا ضروری ہے۔دوسری جانب مسلم معاشروں کو اقتصادی، اجتماعی اور ٹیکنالوجی تبدیلیوں سے ہم آہنگی کیلئے بھی ایسا کرنا لازم ہے۔علاوہ ازیں اسلامی دعوت اور فکر کو عقل سے ہم آہنگ کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ اسی کے ساتھ دین کے مسلمہ اصولوں کی  پابندی اور غیر متزلزل اصولوں کو نہ چھیڑنا بھی ضروری ہے۔
    15صدی سے زیادہ مدت کے دوران اسلامی فکر میں تجدید اور اسلام کا عمل ہوتا رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی فقہ زندگی اور حقیقی تبدیلیوں نیز چیلنجوںسے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بھی ماننا پڑیگا کہ گزشتہ 50برس کے دوران فکری جمود اور سلامی دعوت میں ہونے والے تغیرات نے دنیا میں برق رفتاری سے آنے والی تبدیلی سے ہمرکاب نہیں ہونے دیا۔ اسلام کو انتہا پسند جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اسلامی شریعت کے مقاصد اور اسکی حقیقی روح کو سمجھے اور ہضم کئے بغیر ردعمل دیا گیا۔
    میں سمجھتا ہوں کہ دینی دعوت کو جدید اسلوب میں پیش کرنا فرض ہے۔سوال یہ ہے کہ اس نصب العین کی تکمیل کی راہ میں اہم رکاوٹیں کیا ہیں؟ میرے خیال سے 4اہم رکاوٹیں درپیش ہیں جو یہ ہیں۔
    1۔ دینی دعوت کو عصری اسلوب میں پیش کرنے کی دعوت میں ابہام پایا جاتا ہے۔ آیا اس سے مراد خطبہ جات ، فتویٰ جات ہیں یا  فکر و نظر مقصود ہے یا آیا اسکا دائرہ دین اسلام کی دعوت تک محدود ہے یا تمام مذاہب اسکے دائرے میںآ تے ہیں۔ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ کام کون انجام دیگا۔آیا الازہر ،اسکے علماء، دارالافتاء ، وزارت اوقاف اور عام مسلمان یہ کام انجام دینگے؟یہ کام اصلاح اور اجتہاد کا ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ شائقین پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
    2۔بعض انتہا پسند جماعتیں اور مذہبی رہنما اسکی مخالفت پوری قوت سے کررہے ہیں کیونکہ موجودہ حالات انکے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ تبدیلی سے مفادات متاثر ہونگے۔
    3۔ دینی دعوت کو عصری اسلوب میں پیش کرنا مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ جب تک تعلیم ، سماج اور ثقافت سمیت جملہ شعبوں میں وسیع البنیاد اصلاحات نہیں لائی جائیں گی تب تک یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔
    4۔ تنہا الازہر کو اسکی ذمہ داری دینا یا اسکا کلیدی کردار اسکے حوالے کرنا اسلئے قابل فہم ہے کیونکہ یہ مصر ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں سنی اسکول کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا تعلیمی ادارہ ہے تاہم الازہرپر کلیتاً انحصار درست نہیں ہوتا اسی لئے الازہر کے اندر اور باہر سے اس دعوت کے تئیں اعتراضات کئے جارہے ہیں۔.

 

شیئر: