Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ محسنِ پاکستان‘‘

***شہزاد اعظم***
نصف صدی کسی بھی قوم کیلئے تو انتہائی قلیل عرصہ شمار کی جاتی ہے مگرکسی بھی فرد کیلئے 50سال چشمِ زدن میں گزرجانے والا انتہائی طویل عرصہ ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی اس روئے زمین پر ’’آکسیجن آشنا‘‘ ہوئے نصف صدی گزر چکی ۔’’ آنکھ کھولنے سے لے کر آنکھیں کھلنے تک ‘‘ کے اس دورانئے میں ہم نے بہت کچھ دیکھ لیا۔ ہم نے وہ بھی دیکھا جوہم دیکھنا چاہتے تھے، وہ بھی دیکھ لیا جسے دیکھنے کی خواہش ہی نہیں تھی، وہ بھی دیکھا جو کبھی دیکھا نہیں تھا اوروہ بھی دیکھا جسے روز دیکھتے ہیں۔ اتنی اقسام کے ’’دکھاوؤں‘‘ میں کچھ نظارے ایسے بھی تھے جو ایک دوسرے کے اتنے برعکس تھے جیسے زندگی اور موت، جیسے پست اور بالا، جیسے سفید اور کالا، جیسے بکھرا ہوا شیرازہ اورموتیوں کی مالا، جیسے نکاح کی قربت اور طلاق کی حرمت،جیسے بہار کی حشر سامانیاں اور خزاں کی ویرانیاں، جیسے محبت کی لگن اور دشمنی کی چبھن، جیسے جہالت کا اندھیرا اور علم کا منور سویرا۔ ایسے مناظر نصف صدی کی عمر میں صرف ایک آدھ مرتبہ ہی ہماری بینائی کا مقدر ہو سکے۔ان میں سب سے پہلے اس منظر کی ’’لفظ بندی‘‘ پیش کی جا رہی ہے جو اپنی آب و تاب میں زندگی،بہار، محبت اور نور جیسے اوصاف سے معمور تھا۔
یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب ہمیں جوانی کی دہلیز عبور کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ہم نے ابھی کالج میں ہی قدم رنجہ فرمایا تھا۔ وہاں’’نجو‘‘ نامی ایک لڑکا پہلے ہی دن ہمارا دوست بن گیا۔ کچھ دیر کے بعد پتا چلا کہ اس کا اصل نام تو نظیر ہے ، گھر والے اسے پیار میں ’’نجو‘‘  کہتے ہیں ۔بہر حال وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پہلے پکی ہوئی، پھر پکی تر اور پھر پکی ترین ہوگئی۔اس قدر تیز رفتار دوستانے کا سبب یہ تھا کہ’’نجو‘‘ انتہائی شریف النفس انسان تھا۔ ہم کالج میں پروفیسروں سے کیمیا، انگریزی، ریاضی اور طبیعیات سیکھتے اور ’’نجو‘‘ سے اخلاقیات۔ وہ 6وقت کا نمازی تھا کیونکہ رات کواپنے تایا کے ساتھ تہجد کیلئے بھی بیدار ہوا کرتا تھا۔ہم اسکی دینداری سے بے حد متاثر تھے۔ 
موسم سرما کی چند روزہ تعطیلات میں ہم والدہ کی سفارش کی بنا پر والد صاحب سے اسلام آباد جانے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے اپنی اس کامیابی کا جشن منانے کیلئے ’’نجو‘‘ کو گھر بلایا تو اس نے جشن کو دو آتشہ کرنے کیلئے اپنے ابو سے اسلام آباد جانے کی اجازت حاصل کر لی ۔ انہوں نے’’نجو‘‘ کو بخوشی جانے دیا اور کہا کہ اپنے تایا سے مل کر آنا اور میرا خط انہیں دے دینا۔ہمیں بے حد مسرت ہوئی اور پیروں میں بلیاں بندھ گئیں۔ ہم نے تمام تر طمطراق کے ساتھ اسلام آباد جانے کی تیاریاں مکمل کیں اور بالآخر لاہور سے صبح سویرے ریل کار کے ذریعے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوگئے۔ جمعہ کا روز تھا۔ دن کے 12.30پر اسلام آباد پہنچے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ’’نجو‘‘  نے سب سے پہلے تایا جان سے ملنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ یہ اسکے پاپا کا حکم تھا اور انہیں خط بھی حوالے کرنا تھا۔ ہم دونوں دوست سرکاری لاجز جا پہنچے۔تایاجان کی کوٹھی کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔پورچ میں دو کاریں کھڑی تھیں۔ نیم افسر نما ایک شخص لان میں کرسی پر براجمان اخبار بینی میں مصروف تھا۔ ہم سمجھے کہ یہی تایا جان ہیں مگر ’’نجو‘‘ نے ان سے پوچھا کہ تایا جان کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ جمعہ بازار گئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ کون ؟ انہوں نے کہا میں آپ کے تایا کا ڈرائیور ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ انہیں گاڑی میں کیوں نہیں لے گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تایا جان نے منع کر دیا تھا۔
’’نجو‘‘ نے کہا کہ آئیے ہم دونوں جمعہ بازار ہی چلتے ہیں۔ہم دونوں نے پیدل چلنا شروع کیا۔ہم نے ’’نجو‘‘ سے استفسار کیا کہ تایا جان کیا کرتے ہیں؟ اس نے کہا پبلک سروس کمیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ کے تایا کی بیوی اور بچے نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا سب ہیں مگر وہ ان کے ساتھ نہیں رہتے کیونکہ تایا کی ریٹائرمنٹ میں کچھ عرصہ ہی باقی ہے۔ وہ سب کہتے ہیں کہ ہم مختصر عرصے کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا نہیںچاہتے ۔ ابھی ہم دونوں نے کم از کم 4فرلانگ کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ’’نجو‘‘ نے کہا وہ آ رہے ہیں تایا جان۔ ہم دیکھ کر حیران رہ گئے، سلیٹی رنگ کی شیروانی، سر پر جناح کیپ، سفید شلوار اورانگریز کے زمانے کے سیاہ جوتے پہنے دونوں ہاتھوں میں پٹ سن کے تھیلوں میں ترکاری اٹھائے ہانپتے چلے جا رہے تھے۔’’نجو‘‘  نے انہیں آواز دے کر روکا۔ ہم نے ان کے ہاتھ سے تھیلے لئے تاکہ وہ ’’نجو‘‘ سے معانقہ اور ہم سے مصافحہ کر سکیں۔ اسکے بعد انہوں نے تھیلے واپس لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ ہم نے انکار کیا تو ’’فرمانے‘‘ لگے، انسان کو اپنا کام خود کرنا چاہئے۔ ہم نے کہا تایا جان آپ گاڑی میں کیوں نہیں آئے؟انہوں نے ’’فرمایا‘‘ کہ سرکاری گاڑیاں ہیں، ایک فیملی کیلئے ہے مگر چونکہ میری فیملی تو میرے ساتھ نہیں رہتی اس لئے وہ گاڑی استعمال کرنا میرے لئے ناجائز ہے ۔ دوسری گاڑی حکومت نے سرکاری کام پر جانے آنے کیلئے دی ہے ، میں اپنے لئے ہفتہ بھر کی ترکاری خریدنے کی خاطر اس گاڑی میں جمعہ بازارجائوںتو یہ میرے لئے ناجائر نہیں ہوگا؟ میں کل کو رب کریم کے سامنے حاضر ہو کر کیا جواب دوں گا کہ سرکار نے مجھے کار دی تھی سرکاری کاموں کیلئے پھر اسے میں نے اپنے کاموں کیلئے استعمال کیوں کیا؟پتا ہے ، ہر وہ کام جس میں کسی بھی قسم کا حرام یا ناجائز ذریعہ شامل ہو وہ دنیا اور آخرت دونوںمیں رسوائی و بربادی کا باعث بنتا ہے ۔آپ یقین جانئے، ہم نے ’’نجو‘‘ کے ایسے مثالی تایا جان کو کسی چشمے کے بغیر چشمِ حقیقت سے دیکھ رکھا ہے ۔وہ منظر ہمیں کبھی نہیں بھولتا کیونکہ وہ ہماری زندگی میں مرتب ہونے والی بے مثال پاکستانیوں کی فہرست میں’’ پلوٹھی‘‘ کا واقعہ تھا۔ یہ توایک انتہاء تھی۔ دوسری قسم کے مناظر وہ تھے جنہیں ہم ’’فٹے منہ‘‘ قسم کے منظر کہہ سکتے ہیں۔اس فہرست میں پلوٹھی کا منظرہم نے کچی جماعت میں ہی دیکھ لیاتھا۔اسکے بعد ساری زندگی اس منظر کے بہن بھائیوں میں اضافہ ہوتا رہا ، ہو رہا ہے اور شاید ہوتا رہے گا۔’’فٹے منہ‘‘ قسم کے مناظر اتنے زیادہ ہیں کہ اگر انہیں تحریر کرنے بیٹھ جائیں تو کئی برس اور اَن گنت دفتر درکار ہوں گے۔ یہاں ہم چند ’’فٹے منہ‘‘ قسم کے حقائق کی تفصیل نہیں بلکہ محض ’’شہ سرخیاں‘‘ بیان کر کے اجازت چاہیں گے۔
ذرا غور فرمائیے کہ ایک وزیر نے ٹی وی پر آ کر کہا کہ کیا ہماری پارٹی کا حق نہیں کہ وہ بھی کرپشن کرے؟ماضی میں ایک سابق وزیر سے جب استفسار کیا گیا کہ جناب عروس البلاد میں روزانہ درجن بھر افراد قتل ہو رہے ہیں تو انہوں نے انتہائی ذمہ داری سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ جواب یوں عطا فرمایا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں اگر 12،15افراد قتل ہو جاتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ حال ہی میں ایک محافظ ادارے کے ذمہ دارافسر پر بے گناہ شہری کو قتل کرنے کا الزام عائد ہوا تو اس نے جواب دیا کہ اتنے انسان روز قتل ہوتے ہیں، اگر ایک میں نے مار دیا تو کیا ہوا۔اسی طرح ایک ’’معزز‘‘ ہستی نے فرمایا کہ بیرون ملک ہماری کوئی جائداد نہیں۔ اسی ہستی کے برادرِ حقیقی یعنی جن کا وراثتی مادہ یعنی ’’ڈی این اے‘‘ بھی ایک دوسرے کے بھائی ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ بیرون ملک ہماری جائداد بالکل موجود ہے۔ہمیں نجو کے تایا بہت یاد آئے ، وہ حقیقتاً’’ محسنِ پاکستان‘‘ تھے ۔کاش ان جیسا کوئی رہنما آج سامنے آئے اورزمامِ وطن سنبھال لے ۔

شیئر:

متعلقہ خبریں