ہینان، چین ...... دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کی طرح چین بھی طرح طرح کے ڈرونز بنانے لگا ہے اور ان ڈرونز کی آزمائشی پروازیں بھی جاری ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرون نے آزمائشی پرواز کے دوران ایک ایسی بستی کا سراغ لگالیا جو بظاہر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی تھی۔ اس بستی کا سراغ ڈرون میں لگے انتہائی حساس کیمروں کی مدد سے لگایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق یہ بستی چند غاروں پر مشتمل ہے اور ہین ان کے اس علاقے میں واقع ہے جسے سان مینکسیا کہا جاتا ہے اور تاریخ میں اسکا ذکر چین کے پراسرار ترین قصبات میں ہوتا ہے۔ مورخوں اور ماہرین آثار قدیمہ کا کہناہے کہ اس بستی کے تانے بانے کانسی کے عہد سے ملتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگ انتہائی گہرے غار بناکر ان میں رہتے تھے۔ بستی کی اندازاً عمر 4ہزار سال ہوگی۔ چینی حکام نے اس علاقے کو سیاحتی مرکز قرار دیدیا ہے او رسیاحوں کی آسائش کے لئے ضروری سہولتیں بھی آس پاس میں بنادی گئی ہیں۔ اگر پوری بستی کے ان چھوٹے چھوٹے غار نما مکانات کا اندازہ لگایا جائے تو انکی تعداد کم ازکم 10ہزار ہے۔ حیرت ہے کہ اتنا زمانہ گزر جانے اور دنیا کے ترقی کرجانے کے باوجود تقریباً 3ہزار افراد اب بھی ان غاروں میں رہ رہے ہیں جبکہ بقیہ عصری زندگی گزارنے کیلئے غاروں سے باہر نکل کر ادھر ادھر پھیل چکے ہیں۔ان چھوٹے چھوٹے غار نما مکانات کو یاڈونگ کہا جاتا ہے او ر6نسلیں یہاں زندگی گزار چکی ہیں۔اب جو لوگ موجود ہیں وہ 200 سال سے زیادہ عرصے سے یہاں موجود ہیں۔ اندر کا درجہ حرار ت موسم سرما میں 10درجہ سیلسیئس اور موسم گرما میں 2 ڈگری سیلسیئس رہتا ہے۔ چینی حکام نے اب اس عجیب و غریب علاقے کو مزید ترقی دینا شروع کردیا ہے۔ یہ پوری آبادی نیم دامنی بستی کہے جانے کے قابل ہے۔ مورخین کا کہناہے کہ ایسے مکانات منگ اور قنگ خاندانوں کے دور حکومت میں بھی بیحد مقبول تھے۔