جمعہ 2فروری 2018ء کو شائع ہونیوالے سعودی جریدے الاقتصادیہ کا اداریہ نذر قارئین ہے۔
ممالک کے تعلقات میں سفارتی روایات اور مشترکہ مفادات کا کردارا کلیدی ماناجاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ایک ملک دوسرے ملک سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ دوبرادر اور دوست ملک کسی بھی مسئلے پر مختلف رائے رکھ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں سفارتی روایت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مفادات ایک دوسرے کے مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہ اقوام عالم کے درمیان مانی جانی بات ہے۔ جہاں تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے برادرانہ تعلقات کی بات ہے تو یہ اپنی نوعیت کے شاندار مثالی تعلقات رکھتے ہیں۔ دونوں نے باہمی تعلقات کو بنانے ، سنوارنے اور مضبوط بنانے کے سلسلے میں سفارتی روایات اور مفادات کو روحانی تعلق سے کچھ اس طر ح جوڑ رکھا ہے کہ دونوں کے درمیان کسی بھی موقع پر رونما ہونیوالے اختلاف کو انتہائی پیار ومحبت سے سلجھا لیا جاتا ہے۔
امارات اور سعودی عرب کے درمیان منفرد تعلق کی شاہد دونوں ملکوں کی تاریخ ہے۔ دونوں نے عرب ممالک اور بین الاقوامی سطحوں پر اس کی روشن مثالیں قائم کررکھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے قائدین اس منفرد تعلق کو روایتی شان کے ساتھ آگے بڑھانے کا عزم ِصمیم کئے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے قائدین کو یقین ہے کہ امارات اور سعودی عرب کا مستقبل ایک ہے۔ دونوں تاریخی ، ثقافتی اور اجتماعی رشتوں سے منسلک ہیں۔ سعودی عوام ہوں یا اماراتی، دونوں اس سلسلے میں ہمدم و ہمساز ہیں۔ دونوں اپنے اپنے یہاں تعمیر و ترقی کے نمائندہ بہترین منصوبوں کے نفاذ کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ خلیجی خاندان میں امن و استحکام برقرار رہے۔ شیخ زاید ؒ نے امارات کو جدید تر بنانے اور اس کے اتحاد و سالمیت کیلئے مضبوط بنیادیں استوار کیں۔ مملکت کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے حوالے سے بصیرت اور فراست کا مظاہرہ کیا۔ امارات کی موجودہ قیادت بھی شیخ زاید کی پالیسی پر گامزن ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور شیخ محمد بن زاید کے تعلقات مثالی طرز کے ہیں۔ اسی طرح شیخ محمد بن زاید اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے برادرانہ تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ دونوں مل جلکر یمنی عوام کی مدد اور ایرانی حکمرانوں کی سازشوں کا قلع قمع کرنے کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔