لکھنو .... ایک بس کنڈیکٹر کا 3سالہ بچہ بلڈ کینسر میں مبتلا ہے اور ماں باپ دونوں کی تنخواہ ملا کر بھی اسکا اسپتال کا خرچ پورا نہیں ہورہا ہے۔ باپ کا کہنا تھا کہ بچہ اپنی آنکھوں میں آنسو لاکر کہتا ہے کہ مجھے اسپتال میں نہیں رہنا اور گھر جانا ہے۔ اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ اس نے بتایا کہ میری اہلیہ بھی کسی انہونی کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہم دونوں ہی اس کی سلامتی کیلئے دعا مانگتے ہیں۔ مجھے ماہانہ 15ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور خاندان کے 4افراد کا گزارہ ہوتا ہے۔ میں نے بچے کے علاج کیلئے قرض لیا اور اب تک 12لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ کہانی ہر غریب کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسے لوگوں کی کون مدد کریگا۔