عالم عرب اور مغربی دنیا کی دہشتگردی میں فرق
حمد الماجد - - -الشرق الاوسط
امریکہ میں دہشتگردوں کے ہاتھوں اجتماعی قتل کے واقعات کی بابت آنے والے اعدادوشمار ہیبت ناک ہیں۔ تازہ ترین واقعہ فلوریڈاریاست میں پیش آیا۔ 17بے قصور طلباء کو موت کی نیند سلادیا گیا۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2018ء کے شروع سے یہ اپنی نوعیت کا 18واں واقعہ ہے۔ اسکا مطلب امریکی انائونسر کے بقول یہ ہے کہ امسال دہشتگردی کے واقعات اچھی خاصی تعداد میں ہونگے۔ ابھی 2018ء کے صرف 2ماہ ہی گزرے ہیں۔ 10ماہ باقی ہیں۔ امریکہ سے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق 2013ء سے تاحال امریکی اسکولوں میں فائرنگ کے 290واقعات ہوچکے ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر ہفتے فائرنگ کا ایک واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے۔
اسکے بالمقابل عرب دنیا میں دہشتگردی کے اجتماعی قتل عام کے واقعات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے ۔ عرب دنیا کی مساجد، گرجا گھروں ، اما م بارگاہوں اور انسانوں سے بھرے ہوئے بازاروں میں بے قصور افراد کثیر تعداد میں موت کی نیند سلادیئے گئے۔ تقابل کا پہلو یہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک دہشتگردی کے خطرناک رواج سے نمٹنے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کررہے ہیں اور عرب ممالک کا رویہ اس حوالے سے کیا ہے۔
دیکھا جارہا ہے کہ جب بھی امریکہ یا کسی مغربی ملک میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہ انتہائی معقول اور مدلل انداز میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اسکا جائزہ لیتے ہیں۔ تازہ ترین مثال امریکی صحافی ڈیل ہنسن کی ہے۔ اسکا تجزیہ ، تبصرہ اور سوال ہی میرے آج کے کالم کا بنیادی محرک بنا ہے۔ امریکی صحافی نے دریافت کیا کہ اگر ’’فلوریڈا کے اسکول میں دہشتگردی کی مذکورہ واردات کرنے والا کوئی مسلمان یا میکسیکو کا کوئی شہری ہوتا تو نہ جانے کتنے نئے قوانین بنادیئے جاتے اور اس جنون کے آگے دیوار قائم کرنے کیلئے نہ جانے کتنی دولت صرف کردی جاتی۔ امریکی صحافی آگے چل کر کہتا ہے کہ چونکہ مذکورہ دہشتگردی کاارتکاب سفید چمڑی والے نے کیا لہذا ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
امریکی میڈیا کے حوالے سے خوبصوررت بات یہ ہے کہ وہ جرأت کا مظاہرہ کرکے چشم کشا حقائق سامنے لاتے ہیں۔انکاکہناہے کہ امریکہ کی آبادی کرہ ارض کا 5فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں اندھا دھند فائرنگ کے 31فیصد واقعات امریکہ میں ہورہے ہیں لہذا اصولی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امریکہ جانے سے پہلے تشویش میں مبتلا ہونا چاہئے نہ کہ امریکیوں کو غیر ملکیوں کی اپنے یہاں آمد پر الجھن میں مبتلا ہونا چاہئے۔
بعض عرب صحافی مغربی صحافیوں کو بیحد پسند کرتے ہیںلیکن نہ جانے کیوں واقعات کے تجزیئے ، انصاف کی بات کہنے اور واقعات کی بابت فیصلوں کے اظہار میں عدالتوںکے فیصلوں پر سبقت نہ لیجانے کی مغربی صحافیوں کی روش کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسا کیوں؟۔