جدہ کے میئر کی خدمت میں چند گزارشات
سعودی عرب ان دنوں اپنے وژن کے سایہ تلے کروٹیں لے رہا ہے ۔ یہ وژن اپنے تحت کئی بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ خوشگوار زندگی کی نویدیں سنا رہا ہے۔ مملکت کے طول وعرض میںبڑے منصوبے تیزی سے پایہ تکمیل ہیں جن کی بدولت یقینا ملک اور قوم پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر یہ وژن فائلوں سے نکل کر حقیقت میں تبدیل ہوگیا تو سعودی عرب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں جدہ سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہی نہیں بلکہ باب الحرمین ہونے کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ بھی ہے جو ملک کی معیشت میں شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔رقبے کے علاوہ آبادی کے حساب سے ریاض کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ یہ پورے ملک کا تجارتی مرکز بھی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جدہ کی صورتحال میں کوئی بہتر تبدیلی نہیں ہورہی جو ہمارے وژن سے ہم آہنگ ہو۔ہم اپنے میئر کی خدمت میں چند گزارشات رکھنا چاہتے ہیں ، شاید ان میں سے کسی ایک پر نظر کرم ہو۔
جدہ کے متعدد علاقوں میں سیلاب کے نالے آج بھی کھلے ہوئے ہیں اور ان کا گزر شہری آبادی سے ہوتاہے۔ بارش کے وقت یہ نالے پانی سے بھر جاتے ہیں اور پھر ان کی وجہ سے مچھروں کی پیداوار ہوتی ہے۔بعض اوقات سیلاب کے نالوں میں بارش کے علاوہ بھی پانی جمع ہوتا ہے۔یہ کہاں سے آتا ہے ، اس کی کسی کو خبر نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کھلے نالے حقیقی خطرہ ہیں نہ صرف ان لوگوں کے لئے جو اُن کے قریب رہتے ہیں بلکہ مچھروں کی وجہ سے وبا پھوٹنے کی صورت میں یہ نالے پورے شہر کیلئے انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔شہر کے بعض محلوں میں سیلاب کے بڑے نالے کو انتہائی خوبصورت واکنگ ٹریک میں تبدیل کیا گیا جو میونسپلٹی کی طرف سے قابل قدر اقدام ہے تاہم آج بھی بعض محلوں میں واکنگ ٹریک کے ساتھ کھلا نالہ ہے جہاں مچھروں کی خوب افزائش ہورہی ہے۔ اس کی مثال حی الصفا 9ہے جہاں ٹھیکیدار کمپنی نے نالے کو بند کرنے کا آغاز تو کیا ہے مگر نہ جانے کن اسباب کی بنا پر اچانک کام روک دیا گیا۔
متعدد مسائل میں سے ایک مسئلہ جدہ کے ریستورانوں کا بھی ہے جہاں صفائی اور صحت ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے نہ میونسپلٹی کے قواعد کا۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع پر ان ریستورانوں میں صفائی کا حال دیکھا جاسکتاہے۔ جدہ میں ریستورانوں کی بھرمار ہے اور ان میں سے جو بہت اچھے اور بڑا نام رکھتے ہیں ان میں بھی صحت ضوابط کی پابندی ناپید ہے۔ یہی حال شہر میں عموماً صفائی کا بھی ہے۔ آپ شہر کے پرانے علاقوں میں چلے جائیں تو 2 منٹ کی واک پر آپ کو صفائی کے معیار کا اندازہ ہوجائے گا۔رہا معاملہ شہر کی مرکزی شاہراہوں کا تو ان کا حال بھی گاڑی چلانے والے ہر ڈرائیور کو بخوبی علم ہے۔جگہ جگہ کھڈے اور سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہیں۔بعض اہم شاہراہوں میں کئی سال سے کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ ان شاہراہوں کی وجہ سے اکثر وبیشتر حادثات ہوتے ہیں اور جہاں حادثے سے آدمی بچ جاتا ہے وہاں اس کی گاڑی تباہ ہوجاتی ہے۔ذرا سی بارش سے شہر کی مرکزی سڑکیں ڈوب جاتی ہیں۔ان ڈوبی ہوئی سڑکوں کو دیکھ کر یہاں تعمیر ومرمت کے قواعد وضوابط کی پابندی کا کس قدر خیال رکھا گیا تھا، اس کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔
عمومی پارک کی خستہ حالی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جن علاقوں کے کھلے مقامات پر پارک بنائے گئے تھے وہاں پلٹ کر دوبارہ کوئی نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی آبادی نے اس پارک کو یا تو کوڑا دان بنالیا ہے یا پھر اس جگہ کو پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس کے ساتھ وہ پارک جو اہل محلہ کی تفریح کیلئے بنایا گیا تھا وہ چوہوں اور دیگر حشرات کا محفوظ ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔بعض محلے ایسے بھی ہیں جہاں پارک بنانے کیلئے جگہ مختص کی گئی اور آج تک مختص ہی رہی۔مرکزی شاہراہوں کی فٹپاتھ پر شجر کاری کی حالت بھی انتہائی خستہ ہے۔ بعض شاہراہوں اور سڑکوں سے گاڑیوں کا گزرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ درخت کی شاخیں اس قدر طویل ہوگئی ہیں کہ سڑک تنگ ہوگئی ہے۔
یہ چند گزراشات تھیں جو انتہائی نیک نیتی سے پیش کی گئی ہیں۔