انتہاپسندی اور دہشتگردی کے انسداد کا دوسرا رخ
رضوا ن السید۔ الشرق الاوسط
سعودی ولیعہد شہزادہ محمدبن سلمان نے چند دن قبل کہا تھا کہ ”ہم 1979سے پہلے کے ماحول کو بحال کرنا چاہتے ہیں، ہم دنیا بھر کی اقوام و روایات اور تمام مذاہب کے پیروکاروں نیز سارے جہاں کی طرف روشن دان کھولنے والے اعتدال پسند میانہ رو اسلام کے قیام کے خواہاں ہیں۔“
1979ءنہ کوئی علامت ہے اور نہ کوئی منزل ۔یہ وہ سال ہے جس میں 3تاریخ ساز واقعات رونما ہوئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کا واقعہ پیش آیا۔امریکہ نے افغان، عرب، پاکستانی اور مختلف مسلم ممالک کے جنگجوﺅں اور جہادیوں کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا(1979۔1989)۔جہادیوں نے جمع ہونے ، عسکری تربیت کے حصول اور اپنے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا تجربہ حاصل کرلیا۔القاعدہ کی صورت میں جہادیوں نے سرابھارا ۔ دوسرا اہم واقعہ ایران میں قومی ریاست کے خلاف مذہبی انقلاب کا تھا ۔اس کے نتیجے میں ولایت الفقیہ کا نظام منظر عام پر آیا۔ اس نظام نے نہ صرف یہ کہ ایران بلکہ شیعہ فرقے کے تشخص کو تبدیل کرڈالا۔ ولایت الفقیہ عرب دنیا میں فرقہ پرست ملیشیاﺅں کے ذریعے تخریب کاری کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ تیسرا اہم واقعہ بیت اللہ شریف پر جہیمان العتیبی کے ظالمانہ قبضے کی صورت میں نمودار ہوا۔جہیمان نے سعودی قومی ریاست کی اتھارٹی کو پارہ پارہ کرنے اور دین اسلام میں نقب لگانے کی کوشش کی تھی۔
مذکورہ تینوں ہیبتناک واقعات میں قدر مشترک 2باتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ اسلام میںشیعہ سنی فرقوں کے یہاں نظریاتی، سماجی اور مذہبی روایت کے خلاف پُرتشدد بغاوت ، دوم اسلامی عرب قومی ریاستی نظام پر ضرب کاری۔یہ دونوں پہلو 20ویں صدی کے دوران جہاں تہاں بخوبی دیکھے گئے ۔ افغانستان اور ایران اس کی حقیقی مثال ہیں۔ دونوں ملکوں کے حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور دوسری جانب سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی عالمی کشمکش ابھر کر سامنے آئی۔ایسا لگا کہ امریکہ نے اپنے اہم دشمن کو دیوار سے لگانے کیلئے مذہبی انقلابیت سے استفادے کا فیصلہ کیا۔ 1979کے دوران ویٹیکن کے پوپ یوحنا پولس دوم بنائے گئے۔ انکا تعلق پولینڈ سے تھا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ اتحاد قائم کرکے سوویت کیمپ کے خلاف ایمان اور آزادی کی جنگ چھیڑ دی۔ دوسری جانب اسی مقصد کے تحت شیعہ اور سنی امریکہ کی صف میں شامل ہوگئے۔ ان کا ہدف بھی کمیونزم کیمپ کا دھڑن تختہ کرنا تھا۔ ایران اور افغانستان ہی میں نہیں بلکہ وسطی ایشیا کی ریاستوں اور قوقاز میں کمیونزم کے خلاف جنگ برپا کرنا تھا۔
1979کے واقعات نے سیاسی اور اسٹراٹیجک جغرافیے میں بھاری تبدیلیاں پیدا کیں۔ امریکہ تن تنہا 2عشروں تک یک قطبی نظام کا قائد بن گیا۔ دوسری جانب وفاقی روس تقریباً ایک عشرے سے اپنا توازن بحال کرنے اور 2قطبی نظام قائم کرنے کیلئے کشمکشوں اور جنگوں میں گھس گیا۔ اب تک ہمارا منظر نامہ یہی بتا رہا ہے۔ مذہبی جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہنوز کیتھولک فرقہ کشمکشوں اور جنگوں کے دائرے سے خارج ہے البتہ پروٹسٹنٹ، ہندو، بدھ مت اور یہودیت کے ماننے والے اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ان سب نے اسلام پر زبردست اثرات چھوڑے ہیں۔مسلمان نئے تشیع اور نئے سنی گروہ کے درمیان الجھے ہوئے ہیں ۔ عربوں اور ایران کے درمیان کشمکش ہے۔ انتہا پسندسنیوں اور موجودہ قومی ریاستوں کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے۔
گزشتہ صدی کے نویں عشرے سے تمام عرب ممالک کے یہاں بیک وقت 3چیلنج سراٹھائے ہوئے ہیں۔ سنیوں کے اندر مذہبی بغاوت سب سے اہم ہے۔ سعودی عرب، مراکش اور مصر جیسے طاقتور ممالک اس کی سرکوبی میں مصروف ہیں۔ دوسرا چیلنج نئے تشیع کا ہے۔ یہ ایرانی نقلاب کی پیداوار ہیں۔ یہ قومیت اور فرقہ واریت کا مجموعہ ہے۔ اس کے پیش نظر عرب معاشروں کو تتربتر کرنا اور عرب ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہے۔ شیعہ سنی چیلنجوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنیوں کے یہاں مذہبی بغاوت ابھی تک مزاحمت کی شکار ہے۔ اس کے خلاف مذمت کی کارروائی پوری شدت اور قوت سے جاری ہے جبکہ نئے تشیع کو سرکاری سرپرستی ملی ہوئی ہے۔ تیسرا چیلنج بین الاقوامی مداخلتوں کا ہے ۔یہ کبھی دہشتگری کے انسداد اور کبھی اسٹراٹیجک خلا کوپُر کرنے کے نام پر ہورہی ہے۔
میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ہو یا ہمارے سیاستداں، وہ انتہا پسند نوجوان کے حوالے سے سخت ست اقدامات کرہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی صحیح ، معقول اور مدلل تشریح کے ذریعے نوجوانوں کو درست فکر دینے کا اہتمام کرے اور انہیں انتہا پسندی و شدت پسندی کے بھنور سے نکالنے کی کوشش کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭