فاروق ستار بمقابلہ فروغ نسیم
ننھے بچے اگر چاکلیٹ ، ٹافیوں یا کھلونے پر لڑیں تو سب ہی لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن جب دو اوسط عمرکے پڑھے لکھے لوگ، ایک ساتھ پارٹی میں کام کرنے کے عادی اگر جھگڑ پڑیں ،تو افسوس ہی ہوتاہے کہ آخر ہم کدھر جارہے ہیں، کب میچور ہوں گے، کب ہم بحیثیت ذمہ دار افراد،یا فخر کرنے والا معاشرہ کہلانے کے قابل ہوں گے۔ میں نے جان بوجھ کر کہلانے کے قابل ہونے کا جملہ استعمال کیا ہے اس لیے کہ جو کچھ ایم کیو ایم میں ہوا وہ تو اب تقریباً قصہ پارینہ ہوگیا لیکن تعجب تو اس وقت ہوا جب 2 ذمہ دار لوگ ، ڈاکٹر فاروق ستاراور سپریم کورٹ کے انتہائی قابل احترام وکیل بیرسٹر فروغ نسیم جن کی دنیا قدر کرتی ہے،آپس میں لڑ پڑے،ایک دوسرے پر الزام تراشی کیں۔پھبتیاں کسیںتو پھر ہم سب کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اس ہفتے ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ایک انٹرویو میں فروغ نسیم پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی دماغی صحت ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ انہوں نے ایک تحریر انٹرویو کرنے والے کو تھما دی، جس میں لکھا تھا فروغ نسیم نے انہیں مشور ہ دیا کہ عامر خان کو ایم کیو ایم سے باہر نکال دیں، وہ آپ کی نہیں سنتے،پارٹی میں انتشار پیدا ہوتاہے۔آپ خود سینیئر ترین کنوینر ہیں تو اکثر وبیشتراختیار آپ کے پاس ہونے چاہئیں۔ فاروق ستار نے یہ سب ایک پرچے پر لکھ کرانٹرویو نگار(اینکرپرسن )کے ہاتھ میں پکڑا یا اور تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار فروغ نسیم کو ٹھہرایا۔
بات بہت عجیب لگتی تھی۔ اوّل تو جو شخص ڈکٹیشن دینا کا عادی ہو ، صرف نوٹس لیتاہو، عدالت میں کیس پیش کرتے وقت کن نکات پر بحث کرنی ہے ، جرح کس طرح کرنی ہے، وہ پارٹی کے معاملات میں کیوں مداخلت کرے گا،اور پھر اسے کیا فائدہ ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق فروغ نسیم نے یہ تجویزبھی لکھ کر دی کہ کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی میں شامل کیا جائے اور پھر انہیں کنوینر بنا دیا جائے۔
ہمیں سارے انٹرویو پر تعجب سا ہورہاہے، اس لیے کہ رابطہ کمیٹی کی بہت سینیئر کنوینر جو 2بارسینیٹر رہیں اور انتہائی خوش باش خاتون ہیں۔ ایک انڈین سول سروس کی نازو نعم میں پلی ہوئی لڑکی جس نے فرانس میں تعلیم حاصل کی اور جو پائلٹ بھی ہیں، انہوں نے مجھے خود بتایا کہ سب سے پہلے انہوں نے کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی میں رکھنے اور کنوینر کا عہدہ دینے پر اعتراض کیا تھا۔ وہ آج بھی اپنے الفاظ پر قائم ہیں اور جب سینیٹ کی نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انہوںنے کامران ٹیسوری کے ساتھ سینیٹ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔کنورنوید جمیل نے پارٹی کی میٹنگ میں جو پی آئی بی میں بلائی گئی تھی۔ اعلان کیا کہ نسرین جلیل نے معذرت کرلی ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ضروری ہے۔ اسی انٹرویو نگار نے اے آر وائی کے وسیم بادامی کو فروغ نسیم کا نقطہ نظر حاصل کرنے کے لیے انہیں بھرپور انٹرویو کی دعوت دی۔بیرسٹر صاحب نے سرے سے ہی تحریر کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ ایک کاغذ پر اسی وقت ایک جملہ لکھ کر کیمرے کے سامنے پیس کیا کہ دیکھ لیں میری تحریرکیسی ہے، فاروق ستار کا پیش کیا ہوا سارا کا سارا جھوٹ کا پلندہ ہے۔
وہ ایک مشہور وکیل ہیں، سپریم کورٹ کے کیس لڑتے ہیں ، انہیں ان چیزوں سے کیا مطلب؟ وہ پارٹی میں عہدہ نہیں رکھتے، صرف سینیٹر منتخب ہوئے اور اللہ کے فضل وکرم سے دوبارہ گنتی میں پھر سے 6سال کے لیے ایوان بالا کے رکن بن گئے ہیں۔انہیں پارٹی کے انتظامی معاملات سے کوئی غرض نہیں۔ کبھی انہوں نے اس بات میں دلچسپی نہیں رکھی۔ رابطہ کمیٹی کے ارکان یا پارٹی کے ذمہ داران نے اگر کسی کیس کے بارے میں ان سے رائے مانگی تو وہ قانونی نقط نظر سمجھا دیتے تھے۔ یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں تھا اور پھر ان کے ضمیر کا تقاضا بھی یہی تھا۔
انہوںنے اس با ت سے صاف انکار کردیا کہ دبئی یا پاکستان سے باہر دنیا میں کہیں بھی ان کی پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات ہوئی ہو اگر کسی میٹنگ میں رحمان ملک ہوتے تھے تو اور بھی لوگ ہوتے تھے۔ وہ اپنا نقطہ نظر جو اکثر قانونی رائے ہوتی تھی، ضرور دیتے تھے کہ کوئی خاص کیس کیسے لڑا جائے گا، جرح کس طرح ہوگی؟
پھر ان کا یہ کہنا کہ نئے پارٹی کا منشور تخلیق کیا ، لغو بات ہے۔فاروق ستار سے ان کی ملاقاتیں اکثررہتی تھیں لیکن قانونی نقطہ پر بات چیت تک محدود ۔پارٹی کا منشور ان کے فرائض سے باہر تھا، اس لیے کبھی بھی اس پر توجہ نہیں دی۔یہ پارٹی کی ہائی کمان کا کام تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ فاروق ستار نے انہیں پارٹی کا منشور بنانے کے لیے کہا۔انہوں نے 4یا 5ڈرافٹ لکھ کر ان کے سپرد کردئیے کہ آپ اسے پارٹی ہائی کمان سے منظور کرالیں۔یہ سارے کے سارے ڈرافٹ تھے جو انہوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار کے حوالے کیے۔فاروق ستار کنوینر تھے۔ ان کی بات کو وزن دینا ان کے فرائض منصبی میں تھاشامل۔اب ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ کہنا کہ فروغ نسیم نے پارٹی کے منشور کو مطلق العنان بنا دیا۔ جھوٹ اور لغو بات ہے ۔وہ اس بات کے اہل ہی نہیں تھے، مشورہ مانگا، وہ انہوںنے کئی ایک ڈرافٹ کی شکل میں ڈاکٹر فاروق ستار کو دیدیا۔
فروغ نسیم کسی فضول باتوں میں الجھنے سے گریز کرتے تھے، ان کی پیشہ ورانہ تربیت ہی ایسی تھی، جرح اور مشورہ ان کا کام تھا، جو انہوںنے انجام دیا۔ اسے کسی اور شکل یا الزام کی صورت میں پیش کرنا انتہائی بدنیتی پر مبنی تھا۔ انہیں سخت افسوس تھا کہ فاروق ستار نے نہ صرف پارٹی کو تقسیم کیا بلکہ الزامات لگانے پر اُتر آئے۔اس طرح کی غلط حرکتیں کرتے ہوئے انہیں شرم آنی چاہئے۔
دیکھنا یہ ہے کہ فاروق ستار کا ذہنی علاج کروایا جائے۔کیا انہیں کوئی ذہنی بیماری لاحق ہوگئی ہے، کہ وہ ایک طرف تو پارٹی کو توڑنے پر تُلے ہوئے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ایک شریف النفس انسان پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔عجیب معاملہ ہے۔ انکی سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا ۔پھر وہ یہ بھی سمجھانے سے قاصر ہیں کہ پارٹی کے یکطرفہ منشوربنانے سے انہیں کیسے فائدہ ہوسکتاہے۔یہ تو پارٹی ہائی کمان کا کام ہے، وہ کیوں اس میں الجھیں گے۔اب دیکھیں ایم کیو ایم کی لڑائی آخر کتنی نچلی سطح تک جاتی ہے، کراچی کے لوگوں کو بہت افسوس ہے، انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتاہے، انہیں مہاجر کا لیبل لگا رہالیکن وہ اس پر نازاں تھے کہ ہجرت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی تھی۔