ہمارے ملک میں عوام اس وقت جہاں اور بھی مسائل سے بیزار ہیں وہاں عدلیہ اور حکمرانوں کی کشمکش بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر صبح ایک نئی کہانی سامنے آتی ہیں ۔عدلیہ نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ کرپشن کو جڑ سے ختم کردیگی مگر حکومت اس کے جزوی فیصلوں پر عمل درآمد کرتی ہے اور جو فیصلے اس کو پسند نہیں ،ان پر بھی ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔جعلی ڈگریوں کے قومی ،صوبائی اور سینیٹ کے ارکان ابھی تک اسمبلیوں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔الیکشن کمیشن میں ڈگریوں کے تصدیق کا سلسلہ رک چکا ہے ۔موجودہ سینیٹ کے الیکشن میں زبردست دھاندلی دیکھنے میں آئی ہے اور ووٹوں کی بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کی گئی ہے ۔ابھی سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئر مین کے چنائو کیلئے پھر خرید وفروخت شروع ہوگئی ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار نامزد کرانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنا امیدوار لانا چاہتی ہے ۔تحریک انصاف نے اپنا پلڑا وزیراعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈالدیا ہے ۔دوسری طرف چیف جسٹس صاحب نے مسلم لیگ (ن) کے 3اور پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر کا دہری شہریت کے الزام میں نوٹیفیکیشن روکنے کا حکم جاری کردیا ہے۔دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔سب کو 12مارچ کا انتظار ہے ۔دوسری طرف عدلیہ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں اُسکے سی ای او شعیب شیخ کو دوبارہ گرفتار کروادیا ہے اور اس کیس کا پہلا فیصلہ کرنے والے جج کو برطرف کردیا گیا اور اُس پر مقدمہ چلانے کا آرڈر کردیا ہے ۔
میں اکثر اپنے قارئین کو بیرونی ممالک کے واقعات جن کا میں خود مشاہدہ کرتا ہوں لکھتا رہتا ہوں ۔چند سال قبل میں نے لندن کے اخبارات میں پڑھا کہ وہاں کے وزیراعظم اسپتال میں اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ کسی سے ملنے پہنچ گئے ۔اتفاق سے اسپتال کے انچارج سرجن اور ڈاکٹروں کی ٹیم بھی اپنے مریضوں کو روزانہ کے چیکنگ کیلئے معائنہ کررہی تھی۔انہوں نے وزیراعظم کے ساتھ جو اتنے بندے دیکھے تو سرجن نے آگے بڑھ کر وزیراعظم کو اُن کے اس بغیر اطلاع آنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسپتال سے چلے جانے کو کہا۔ جواب میں وزیراعظم نے بھی فراخدلی سے اپنی غلطی تسلیم کرلی ۔اُس وقت مریضوں سے ملنے کا وقت نہیں تھا ۔کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی سر پھراسرجن اتنی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ وزیراعظم کو مریضوں کے اوقات کے علاوہ وقت میں آنے سے روک سکتا ہو۔ان ممالک کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی پر منحصر ہے جو اسلام کا بنیادی حصہ ہے کہ "عدل قائم کرو"مگر آج مسلمان عدل سے خود کو دُور کرچکے ہیں ۔
ایسا ہی ایک واقعہ چند سال قبل کینیڈا کے شہر وینکوور میںبھی پیش آیا تھا جب اُن کی آئس ہاکی کی ٹیم مہمان ٹیم سے ہار گئی تو وہاں موجود اسٹیڈیم سے نکلنے والے افراد اپنی ٹیم کی ہار برداشت نہیں کرسکے اور انہوں نے چند گھنٹوں میں شہر کی سڑکیں ،تجارتی مراکز پر غصہ کے حالت میں توڑ پھوڑشروع کردی تھی ۔پورا شہر دہشت گردی کا شکار ہوگیا تھا مگر فوری طور پر وہاں پولیس اور ہنگامی دستے پورے شہر میں پھیل گئے تھے اور لوٹ مار کرنے اور تھوڑپھوڑ کرنے والوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ۔صرف 2دن میں پورے شہر کو ان توڑپھوڑ کرنے والوں سے نجات دلواکر اور شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بناکر پولیس نے اپنی کارکردگی کا نمونہ پیش کردیا ۔وہاں کے عوام ایسی دہشت گردی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر وہاں بھی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے فور س بنا رکھی ہے جو صرف ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔
کچھ عرصہ قبل G-20کی میٹنگ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں G-20کے تمام اہم ممبران ٹورنٹو آئے تھے جن میں امریکی صدر بھی تھے۔ کینیڈین پولیس نے زبردست حفاظتی انتظامات کئے تھے ۔ٹورنٹو کے ڈائون ٹائون شہر کوسیل کرکے 3دن تک آنے جانے کے تمام راستے بند کئے تھے ۔رکاوٹوں سے 100میل تک شہریوں کے داخلے بھی بند کردیئے گئے تھے ۔وہاں کی ایک تنظیم کے لوگوں نے جو اس G-20کیخلاف تھے، آگے آنے کی کوشش کی تو ایک شخص کو ایک پولیس والا جو ہیلمٹ سے چہر ہ چھپایا ہوا تھا بہت بے دردی سے مار کرواپس جانے پر مجبور کرتا رہا ۔چونکہ اس کا چہرہ ہیلمٹ سے چھپاہوا تھا اس کی نشاندہی نہیں ہوسکی ۔میڈیا پر وہ ہمارے میڈیا کی طرح باربار دکھاتے رہے ۔ایک سال بعد اس پولیس والے کی نشاندہی بھی میڈیا نے اپنے ذرائع سے نکالی۔ اس کو اب عدالتی کارروائی سے گزرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہاں پولیس ایسا وحشیانہ لاٹھی چارج نہیں کرسکتی۔وہ بھی عوام اور قانون کو جواب دہ ہے۔
انسان تو کجاکینیڈا میں کسی جانور کو بھی نہیں مارسکتے ،کسی درخت کو نہیں کاٹ سکتے ۔کسی عام پرندے کو اپنے گھر کے بچے ہوئے کھانے یا اجناس نہیں ڈال سکتے ۔اگر آپ نے ایسی غلطی کردی اور اگرپولیس کو کسی نے اطلاع کردی تو آپ کو سزا ہوسکتی ہے۔ اگر آپ نے کینیڈا میں اپنے ہی چھوٹے بچے کو گھر میں محفوظ نہیں رکھا اور کسی طرح دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور کوئی پولیس کو فون کردے کہ کوئی چھوٹا بچہ ہاہر گھوم رہا ہے تو فوراً مقامی پولیس کی گاڑی حرکت میں آجائیگی اور بچے کو اپنے ساتھ لے جائے گی ۔پھر والدین کی تلاش ہوگی اور والدین سے سوال ہوگا کہ یہ بچہ آپ کے گھر سے باہر کیسے آیا ۔آپ نے اس کی حفاظت کیوں نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔پھر والدین کو تاکید کرکے بچہ واپس کردیا جاتا ہے ۔اور اگرپھر یہ واقعہ دوبارہ پیش آئے تو پولیس بچے کو نگہداشت کے اداروں کے حوالے کردیتی ہے، پھر بچہ 18سال تک وہیں پرورش پاتا ہے ۔جوان ہونے پر اس کے والدین کو پھر بتایا جاتا ہے اگر بچہ واپس گھر جانا چاہتاہے تو ٹھیک ورنہ وہ پھر مادر پدر آزاد ہوجائیگا ۔ اگر اس کے پاس کوئی روزگارنہیں ہو تو حکومت اس کی کفالت کرتی ہے۔
یہی اسلام کا درس تھا جو ہم بھلا چکے ہیں۔ایسے ہزاروں قانو ن کی حکمرانی کے واقعات یورپ ،امریکہ اور ترقی پذیر ملکوں میں آج بھی جاری ہیں جو انہوں نے مسلمانوں سے ان کی آسمانی کتاب قرآن سے حاصل کرکے اپنے ملک کے عدلیہ اور قانون کا حصہ بنادیا ہے مگر آج مسلمان عدل کو بھلا کر خود خوار ہورہے ہیں اور اب تو عدلیہ کو بھی نیچا دکھاکر عدلیہ کے مقام کو گرا رہے ہیں جیسا کہ نہال ہاشمی کو ایک ماہ سزا اور جرمانہ کیا گیا تھا مگر سزا کاٹ کر رہا ہونے کے بعد انہوں نے پھر عدلیہ کیخلاف دل کھول کر بھڑاس نکالی اور اب عدلیہ نے انہیں دوبارہ توہین عدالت کا نوٹس بھج دیا ہے ۔ماضی میں جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے نااہل قرار دیا تو اُس وقت نواز شریف علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ عدلیہ کا فیصلہ بالکل درست ہے اور اب جبکہ اُن کو نااہل قرار دیاگیا ہے تو وہ اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ مل کر کھل کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ عوام نے انہیں کامیاب کرایا ہے مگر عدلیہ نااہل قرار دے رہی ہے۔ یہ تضاد کہیں نہیں دیکھا ۔اب تو وزیراعظم صاحب بھی جلسوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ اور میڈیا کا فیصلہ قبول نہیں۔ عوام کا فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے۔