میں جس قصاب سے گوشت لیتا ہوں اس نے اپنی د کان پر کسی افسر کا دستخط شدہ سرکاری نرخ نامہ لٹکا رکھا ہے۔اس پر موٹا موٹا لکھا ہے مٹن 650 روپے فی کلو۔بیف 380 روپے فی کلو۔مگر یہ قصائی مجھے مٹن 750 اور بیف 450روپے فی کلو فروخت کرتا ہے۔ایک دفعہ میں نے لٹکے ہوئے سرکاری نرخ نامے کی جانب توجہ دلائی تو ہنس پڑا ’’ بابو جی ایسے نرخ نامے تو ہمیشہ حکومت بناتی رہتی ہے۔نرخ نامے بنانے والوں نے کبھی خود دکان سے گوشت خریدا ہو تو وہ جانیں۔ہم نے تو ہمیشہ ان کے ڈرائیوروں اور خانسامائوں کی ہی صورت دیکھی ہے۔یہ جو میں750 روپے کلو مٹن اور 450 روپے بیف بیچ رہا ہوں اس میں سرکاری فوڈ انسپکٹر کے منتھلی سروس چارجز اور مقامی بھتہ خور ٹیکس بھی شامل ہے۔کیا کریں بابوجی جنگل میں جینے کیلئے کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے ورنہ تو زندگی ہمیں بھی بکرے کی تریوں الٹا ٹانگ دے۔
کچھ ایسی ہی درد بھری داستان دودھ والا ، پھل فروش ، کنجڑہ اور محلے کا پرچونیہ بھی سناتا ہے اور یوں سناتا ہے کہ آپ الٹا ان پر منافع خوری اور چور بازاری کا شبہ کرنے کے بجائے رقت آمیز ہمدردی جتانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
متعلقہ سرکاری اہلکار سے شکایت کریں تو وہ اپنی رام کتھا لے کر بیٹھ جاتا ہے کہ صاحب آپ خود ہی انصاف کریں آپ تو پڑھے لکھے ہیں۔4 میرے بچے ہیں۔گریڈ میرا 14ہے۔ اوپر والوںنے 4 سال سے پرموشن روکا ہوا ہے۔ میں دکانداروں سے جو منتھلی جمع کرتا ہوں آپ کا کیا خیال ہے صرف میری جیب میں جاتی ہے۔ یہ دکھ بھری داستان سن کے میں اس کرپٹ سرکاری اہلکار کو گھورنے کے بجائے گلے لگ کے رونے لگ جاتا ہوں۔
بھتہ خور سے پوچھیں کہ بھئی تجھے کیا مسئلہ ہے کہ تو اپنے ہی جیسے لوگوں کی کھال اتار رہا ہے۔وہ یہاں سے شروع ہوگا کہ وسعت صاحب اور کوئی یہ پوچھنے کی جرأت کرتا تو ایک چماٹ دیتا مگر آپ ماشاللہ صحافی ہیں آپ کے سامنے تو میں اُف بھی نہیں کرسکتا۔آپ لوگ تو پولیس والوں سے بھی پیسے لے لیتے ہیں تو پھر میں کس کھیت کا بتھوا ہوں۔اب آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنئے۔میں بھتہ نہیں لوں گا تو کوئی اور لینا شروع کردے گا اور پھر علاقے میں میری بات خراب ہوجائے گی۔
آپ کو صرف بھتہ نظر آتا ہے۔اس کے بدلے ہم جو سماجی کام کرتے ہیں وہ کبھی نظر نہیں آتے۔یہ سامنے کی زمین دیکھ رہے ہو۔ ریلوے کی زمین تھی برسوں سے خالی پڑی ہوئی تھی۔اگر ہم نے اللہ کی اس خالی زمین پر اللہ کے بے گھر بندوں کو بسا دیا ۔ کنڈے سے بجلی دے دی اور پانی کا نل لگوا دیا تو کون سی زیادتی کی۔گورنمنٹ آپ سے بیسیوں ٹیکس لیتی ہے۔ کبھی کسی نے پوچھا کہ وہ ٹیکس کہاں جاتا ہے۔ پھر آپ پانامہ لیکس کو روتے پھرتے ہیں۔
یہ ڈیرہ آپ دیکھ رہے ہیں۔یہاں جو بھی غریب غربا آتا ہے کھانا کھائے بغیر نہیں جاتا۔پھر رینجر ، پولیس والوں اور سیاست دانوں کی مہمانی اور ان کے کام الگ۔بندہ گرانے سے لے کر کچن چلوانے تک سب ہم سے کروا لیں گے لیکن مجال ہے جو یہ سالی سڑک بنوا دیں۔اور بدنام ہم ہیں کہ بھتہ خور ہیں۔وسعت صاحب میں اللہ کو حاظر ناظر جان کے کہتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے اپنی جیب سے رومال نکال کر اسے کہا کہ بھائی آنسو پونچھ لے۔مجھے بھی رلائے گا کیا ؟؟؟؟
آپ چیف منسٹر سے لے کر وزیراعظم تک کسی سے پوچھ لیں کہ جناب آپ کے ہوتے ہوئے یہ کیا ہورہا ہے۔فوراً جواب آئے گا کہ ہمیں عوام کی مشکلات کا پورا پورا اندازہ ہے۔مگر ہمارے پاس الہ دین کا چراغ تو نہیں کہ راتوں رات سارا نظام ٹھیک ہوجائے۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم دن رات لگے پڑے ہیں۔بمشکل 4 سے 5 گھنٹے کی نیند میسر آتی ہے۔ اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔اچھا ہوا آپ آ گئے۔یہ رپورٹ آج ہی میرے سامنے آئی ہے۔اس کی ایک کاپی آپ بھی لے جائیں تو اندازہ ہوگا کہ حالات کتنی تیزی سے سدھر رہے ہیں۔
مثلاً پچھلے سال آپ کے صوبے میں قتل کی 2419 وارداتیں ہوئیں لیکن اس سال الحمدللہ صرف 2371 قتل ہوئے ہیں۔اسی طرح ڈکیتیوں میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔پچھلے سال ہم نے صرف 315 بھتہ خور پکڑے تھے۔اس سال آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ہم نے 318بھتہ خور پکڑے ہیں یعنی پچھلے سال کے مقابلے میں 3 زیادہ۔مگر یہ صرف حکومت کی ہی تو ذمہ داری نہیں۔عدالتی نظام کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔وقت تو لگے گا لیکن ان شااللہ ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا۔مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
آپ تو خیر شریف آدمی ہیں۔میڈیا کو سوائے طعنوں کے کچھ کام نہیں۔ہم جو عوام کی خدمت میں دن رات جٹے پڑے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔بس ہماری نسل در نسل محنت سے حاصل کمائی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سب غریب ایماندار اور سب کروڑ پتی، ارب پتی چور ہیں۔بھائی پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں مگر صاحب ریٹنگ کا لالچ اچھے اچھوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور پھر شریفوں کی عزت خاک میں ملانے پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہوتی۔
ان سب ’’ بے چارے ’’ لوگوں سے مل کر میری آنکھیں کھل گئیں ۔ اب میں تھک ہار کے گھر میں پڑا سوچ رہا ہوں کہ ہم کتنی خوش قسمت قوم ہیں۔کیا آپ کو دنیا میں کہیں بھی 20 کروڑ بے قصور لوگ ایک ہی ملک میں ملیں گے ؟ شکر اس مالک کا جس نے اتنا اچھا ملک دیا۔