ذمے دار ہاتھ کیسے ہوتے ہیں ؟
روسی صدر پوٹین نے گذشتہ ہفتے انتخابی مہم کے آخر میں اپنے حامیوں کو بطور نوید ایسے خوفناک ہتھیاروں میں سے کچھ کے خاکے دکھائے کہ جنہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں مارا جاسکتا ہے۔لگتا ہے ٹرمپ کے امریکہ اور پوٹین کے روس میں وہی مقابلہ پھر سے شروع ہونے والا ہے جس کے بارے میں گمان تھا کہ اسے سرد جنگ کی قبر میں دفنا دیا گیا ہے۔
1945 میں اس کرہِ ارض پر ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 2 تھی اور دونوں امریکہ نے جاپان پر استعمال کر ڈالے۔چنانچہ ایٹمی ہتھیاروں سے بچنے کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی دوڑ شروع ہوگئی۔اگلے 51برس میں یہ ایٹمی ہتھیار دو سے بڑھ کے64449 ہو گئے مگر احساسِ عدم تحفظ کا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
زمین کے سینے پر پہلا تجرباتی ایٹم بم پھوڑنے والے امریکی سائنسدانوں کے مین ہیٹن گروپ کا خیال تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے ہوتے روایتی اسلحے کی ضرورت کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی کیونکہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی ایسا توازنِ دہشت ِ قائم کردے گی کہ اقوام ان کے خوف سے روایتی جنگیں لڑنے سے بھی ہچکچائیں گی۔
سب اندازے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جھاگ کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔ایٹمی ہتھیاروں سے لبریز دنیا میں روائیتی ہتھیاروں کی کھپت ہر سال بڑھتی ہی چلی گئی۔پہلی اور دوسری عالمگیر جنگ میں مجموعی طور پر جتنے لوگ ہلاک ہوئے ( لگ بھگ 5کروڑ )۔ان سے کہیں زیادہ1945 کے بعد سے اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے سبب ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔سب کا سب خون خرابہ ایٹمی چھتری کے سائے تلے روایتی ہتھیاروں کے زریعے ہوا اور ہو رہا ہے۔
سب جانتے تھے کہ جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر کبھی استعمال نہیں ہوں گے لیکن ان کی اہمیت و حیثیت اس خنجر کی ہو گی جسے دکھا کے کمزور حریف کو گلی کا بدمعاش چانٹے مار کے اپنی دہشت سستے میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں قیامِ امن کی زمہ دار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکن پانچوں بڑی طاقتیں یکے بعد دیگرے ’’ جوہریاتی ’’ چلی گئیں۔سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو ہوا جس نے سوویت یونین کو ایٹمی ہتھیاروں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کے اس کی تیز رفتار معیشت کو پگلا دیا۔یوں سوویت سسٹم کو یک رخی مہنگی سرنگ میں دھکیل کر ایمپائر کے ٹکڑے ٹکڑے کروا دئیے۔
یہ ہدف حاصل کرنے کے بعد مغربی ایٹمی طاقتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے کبھی نہ استعمال ہونے والے انباروں میں کمی کی وکالت شروع کردی۔چنانچہ ’’ زخمی و شکستہ سوویت یونین کا وارث ’’ روس بھی اس فضول دوڑ سے باہر آنے پر راضی ہوگیا۔یوں 1945 میں دو ہتھیاروں سے شروع ہو کر جو کہانی1986 میں 64449ہتھیاروں کے ذخیرے تک پہنچی وہ 2014میں کم ہو کر10455ہتھیاروں تک آ گئی لیکن اب پھر اضافے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔
نئے ہتھیاروں میں استعمال کے لئے تیار2017 میٹرک ٹن افزودہ یورنئیم اور 550 ٹن پلوٹونئیم اعلانیہ ایٹمی طاقتوں سمیت درجن بھر ممالک کی تحویل میں ہے اور اس کا تحفظ جوہری ہتھیاروں کے تحفظ سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔
1945سے جوہری معاملات پر نگاہ رکھنے والی امریکی تنظیم بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس کے مطابق گذشتہ 5برس کے دوران امریکہ میں جوہری ایندھن کی چوری کے 27، فرانس میں 2 اور باقی دنیا میں 4وارداتیں ہوئیں۔جوہری ایندھن کھو جانے کے سب سے زیادہ واقعات یعنی 14امریکہ ، فرانس ، ارجنٹینا ، برازیل اور چلی میں2,2اور دیگر ممالک میں3 ہوئے۔
اس کے باوجود ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول کی تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہندکے ایٹمی سیکورٹی کے انتظامات اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں لیکن وہاں جوہری مواد تک خطرناک گروہوں کی پہنچ ہونے کا امکان کم ہے۔اس کے برعکس پاکستان نے اگرچہ گذشتہ 20 برس میں اپنے جوہری اثاثوں تک رسائی کو مشکل بنانے کے لئے تسلی بخش انتظامات کر لئے ہیں اور اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کے تحت 25 ہزار نفری پر مشتمل ایک پورا فوجی ڈویژن جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے وقف ہے۔اس کے باوجود کینیڈی اسکول کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں باصلاحیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی ، شدت پسندی کے کاز سے پھیلتی ہمدردی ، اور کرپشن کے بے لگام خطرے کے سبب مغرب کو آج پہلے سے بڑھ کے فکر لاحق ہے کہ اگر مذکورہ وجوہ کے سبب کسی دن پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ بیٹھ گیا یا شدت پسندوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا یا کسی گروہ کے اندرونی تعاون و نیٹ ورک کے سبب جوہری مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا تو کیا ہوگا ؟
جوہری تحفظ کے امریکی ریکارڈ کا پاکستان ریکارڈ سے موازنہ کیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ امریکہ کے برعکس پاکستان میں ایک بھی جوہری ہتھیار یا مواد کی کھیپ نہ چوری ہوئی نہ کسی کے ہاتھ لگی پھر بھی امریکہ اپنے سے زیادہ پاکستان کے لئے فکرمند رہتا ہے۔اسے کہتے ہیں دوسرے کو نصیحت خود کو فصیحت۔۔۔
دوہرے معیار میں لپٹا دوسرا جوہری لطیفہ مشرقِ وسطی میں پایا جاتا ہے۔اسرائیل آج سے نہیں گذشتہ 50برس سے غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے اور ایٹمی ہتھیار سازی پر نگاہ رکھنے والے تمام سرکردہ بین الاقوامی تحقیقی ادارے اس حقیقت کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے میں رکھے ہتھیاروں کی تعداد ( 80) تک جانتے ہیں۔لیکن اسرائیل اور امریکہ وغیرہ کو اگر تشویش ہے تو ایران ، پاکستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر۔
ذمے دار ہاتھ کیسے ہوتے ہیں ؟ اہلیانِ ہیرو شیما ناگاساکی سے بہتر کون بتا سکتا ہے ؟