Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمت للعالمین ﷺ کی سیرت ، تاریکیوں میں نور مبین

جب تمہارا بھائی تم سے ملاقات کیلئے آئے تو اس سے یہ مت پوچھو کہ کھانا کھاؤگے یا کھانا پیش کروں؟ بلکہ اس کیلئے کھانا پیش کردو 
ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ
 
حضرت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اولین شاہد ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف مبارکہ میں سے سب سے پہلی صفت جو بیان کرتی ہیں وہ صلہ رحمی ہے ۔ ہم اس سے قبل صلہ رحمی کے ثمرات اور قطع رحمی کے مضرات پر اور پھر کونسے لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ صلہ رکھنا شرعی واجب ہے؟ان میں سے اولین درجہ والدین کا ہے ۔ ان عنوانات پر قرآن وسنت کی روشنی میں روشنی ڈال چکے ہیں ۔
مہمان نوازی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مختلف شہود کی شہادتوں میں بیان کردہ صفات رحمت للعالمین میں سے ایک صفت اکرام ضیف (مہمان نوازی ) ہے ۔ مہمان نوازی کیسی ہو اور مہمان کی آمد پر میزبان کی کیا کیفیت ہو؟مہمان او رمیزبان کے بارے میں کتاب وسنت کی کیا تعلیمات ہیں کہ اکرام ضیف کا عمل بھی ہمارے ایمان میں اضافے اور رحمن سے قرب کا موجب ہوتاہے اور حضرت رحمت للعالمین سے ہماری محبت کی علامت ہے۔
  بلاشک مہمان کا اکرام ہر انسانی معاشرہ میں ایک کریم اورشریف عمل ہے ۔رہے اہل ایمان تو ان کے ہاں تو علامت ایمان ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ جو کوئی اللہ اور آخرت پر ایمان لاتاہے تو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ۔
مزید پڑھیں:جاپانی خاتون سووی اورا ،خدیجہ بن گئیں
غور کیجئے کہ یہاں2 عظیم غیبوں (ان دیکھی)کو مد نظر رکھنے کی تعلیم ہے اور وہ ہیں اللہ جل جلالہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایما ن کہ ہم جو حسن سلوک اپنے مہمان،حضرت انسان کے ساتھ کریںاُس میں ہمارا مطمح نظر اللہ تعالیٰ کی ذات کی خوشنودی اور آخرت میں ہماری سعادت ہو۔یوم آخرت کا اجر وثواب ہو ۔ہمارا یوم الحساب کو اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب وکتاب ہونا ہے ، اس کی فکر رہے ۔دنیا میں اپنے مہمان سے ہمیں کوئی بھی غرض نہ ہو۔یہ تو انتہائی گھٹیا فکر ہوگی ،یہ بلند یا عالی فکر نہیں ۔مؤمن کی نگہ بلند اور فکر ہمیشہ عالی ہونی چاہئے ۔
یقینامہمان کا اکرام ،اخلاق فاضلہ میں سے ایک خلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے سربلند بندے حضرات انبیائے کرام ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہمیشہ ان کی سیرت پر اپنے ہر عمل کو پرکھنا چاہئے۔ قرآن کریم میں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیائے کرام کا ذکر فرمایاہے تو آخر میں یہ فرمایا ہے ’’ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے‘‘۔سو تم بھی ان کی ہدایت کی اقتداکرو ، تم ان کی راہوں کو تلاش کرکے انہیں اختیار کرو۔ 
  مہمان کا اکرام محض پُر تکلف کھانے سے نہیں ، کہ اگر تکلف پر قدرت نہ ہو تو مہمان سے اعراض برتاجائے ۔مہمان رحمت ِ رحمان ہے ۔ اس کا اکرام آپ کے پاس جو بھی موجود ہے اسی سے کرنے کا حکم ہے ۔عربی کا مشہور مقولہ ہے ’’الجود بالموجود‘‘  یعنی ’’جو موجود ہے ،اسی سے کرم وسخاوت کا اظہار کرو‘‘۔
یہ اکرام ِ ضیف میں سے ہے کہ اس کا استقبال  پُر تپاک ہو۔ اس کی طرف مکمل توجہ کی جائے۔طاقت سے بڑھ کر مہمان کیلئے کچھ کرنا مطلوب ہے نہ یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔بہت سارے لوگ اس ادب سے واقف نہیں ہوتے پھر وہ  اس عذر کی وجہ سے کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کیلئے کچھ نہیں ، وہ اللہ کی اس رحمت سے اپنی جہالت کی وجہ سے محروم رہتے ہیں ۔اور یہ حضرات انبیاء کی ہدایت اور ن کے طریقے کے خلاف امر ہے۔
مزید پڑھیں:معاشروں کی تباہی ، تاریخ کے تناظر میں
قرآن کریم میں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی ضیافت کا ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے پاس پہنچے تو بلا قیل وقال انہوں نے انہیں ضیافت پیش کردی ۔
  قرآن کریم اسی ضیافت ِ ابراہیمی کو سورہ ہود میں بیان کرتاہے۔
چونکہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے ،اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام شروع میں انہیں انسان ہی سمجھے اور ان کی مہمانی کیلئے بھنے ہوئے بچھڑے کا گوشت لے کر آئے لیکن وہ چونکہ فرشتے تھے اور کچھ کھاتے نہیں تھے ، اس لئے انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔اُس زمانے میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص میزبان کے یہاں کھانا پیش ہونے کے بعد نہ کھائے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ وہ کوئی دشمن ہے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔ اس موقع پر فرشتوں نے واضح کردیا کہ وہ فرشتے ہیں اور آپ کو بیٹے کی خوشخبری دینے کیلئے آئے نیز وہ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی کی طرف عذاب کیلئے بھیجے گئے ہیں ۔
تو یہ مہمان کے اکرام میں سے ہے کہ اس کی خدمت میں موجود شیٔ میں سے افضل پیش کردی جائے اور مذکورہ آداب کی پاسداری ہو ۔ آپ مہمان ہوں یا میزبان ہر ایک کو تعلیمات نبویؐ  کو اپنا مرشد ورہنما بنانا ہوگا۔ شارع کی اس ’’اتباع‘ قربت اور اطاعت اللہ اور اطاعت رسول بلکہ محبت رسول کہتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے :
’’ آپ() فرمادیں لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو تمہیں میری اطاعت کرنا ہوگی۔‘‘
یہ اطاعت نماز روزہ حج زکاۃ ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں اور اپنی حیات کے ہر موقف اور موڑ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو شریح خزاعی کی روایت نقل فرمائی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
’’ضیافت 3 دن تک ہے اور اس کا تکلف ایک دن رات تک چاہئے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے ۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کس طرح اس کو گناہ میں ڈالے گا؟ 
آپ نے فرمایا:
’’ اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ کھلانے کیلئے کچھ نہ ہو ۔‘‘(صحیح مسلم )۔
قرآن کریم نے حضرات صحابہ کرام  ؓکو یوں خطاب فرمایا :
’’ اے ایما ن والو !تم نبی ()کے گھروں میں بغیر بلائے مت جایا کرو مگر جس وقت تم کوکھانے کیلئے آنے کی اجازت دی جائے تب ہی جایاکرواور جانا ایسے طورپر ہو کہ کھانے کی تیاری کے منتظر نہ رہو ،جب کھانا تیار ہو تب جایا کرواورپھر جب کھانا کھالو تو اٹھ کرچلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھا کرو کیونکہ اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے ، سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کرنے میں کسی کے لحاظ کا محتاج نہیں اور جب تم نبی کی بیبیوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر کھڑے ہوکر مانگو ،یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے ۔‘‘
مہمان کو میزبان کے گھر میں جھانکنا، تتبع کرنا ، یہ جستجو کرنا کہ وہ کیا پیش کررہاہے ،اہل خانہ کو پردہ کے پیچھے سے مخاطب ہونا ۔ یہ تمام تعلیماتِ قرآن مجید ہیں اور تعلیمات نبوی  ہیں جن کی پابندی مہمان کو لازم ہے ۔
مزید پڑھیں:وہ جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں!
مہمان کیلئے میزبان کے اسرار کی جستجو کرنا شرعی آداب کی خلاف ورزی ، اللہ اور رسول کی صریح نافرمانی ہے ۔
میزبان کو اپنے مہمان کی خاطر مدارت حسن لقاء وحسن استقبال اور اس کے ساتھ خوبصورت انداز میں گفتگو کا حکم ہے بلکہ عربی کا معروف مقولہ ہے : حسن بشاشت حسن ضیافت (اچھے کھانوں) سے افضل ہے‘‘۔
ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ مہمان کا اکرام ہے کہ اسکے ساتھ عمدہ اسلوب گفتگو اختیار کرو چہرہ پر بل نہ ڈالو۔بذات خود خدمت کرو اس لئے کہ اپنے مہمانوں کی عزت کرنیوالا کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور انہیں اپنی خدمت میں لانیوالا اور ان سے بدلہ چاہنے والا عزیز نہیں ہوتا ۔
میزبان کو اپنے مہمان کے ساتھ جن آداب کی پاسداری کرنا چاہئے ۔مندرجہ ذیل ہیں:
٭  کھانا جلد پیش کرنا۔ یہ مہمان کے اکرام میں سے ہے ۔حضرت حاتم اصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جلدی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے مگر 5 چیزوں میں عجلت سنتِ نبویؐ ہے : مہمان کو کھلانا،میت کی تجہیز،جوان بچی کی شادی،قرض کی ادائیگی اور گناہ سے توبہ۔
٭  جب مہمان کو کھانے کی پیشکش کردی اور اس نے مروت میں منع کردیا تو اس کے منع کو کافی نہ سمجھے گویا کسی مصیبت سے خلاصی مل گئی ۔ یہ بخل کی علامت اور سوء تصرف ہے بلکہ مہمان سے کھانے کا پوچھنا بھی بخل کی علامت ہے بلکہ میزبان کو چاہئے کہ وہ کھانا پیش کردے۔
٭  امام ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جب تمہارا بھائی تم سے ملاقات کیلئے آئے تو اس سے یہ مت پوچھو کہ کھانا کھاؤگے؟ یا کھانا پیش کروں؟ بلکہ اس کیلئے کھانا پیش کردو ۔اگر اس نے کھانا ہوا تو کھالے گا ورنہ اٹھالیا جائے ۔‘‘
٭آداب میں سے یہ بھی ہے کہ جب تک مہمان پوری طرح کھانا ختم نہ کرے دستر خوان کو سمیٹنا شروع نہ کرے۔
٭یہ بھی آداب میں سے ہے کہ اگر میزبان مہمان سے قبل سیر ہوجائے تو وہ مہمان کی موانست کی خاطر دستر خوان پر بیٹھا رہے جب تک مہمان کھانے سے فارغ نہ ہو اور اس سے مناسب گفتگو کرتا رہے۔
٭مہمان سے قبل نہ سوئے۔
٭  مہمان کے سامنے زمانے کے مصائب بیان نہ کرے ۔
٭  اپنے آپ کو طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دے۔
٭  اور جب مہمان واپس چلا جائے تو دروازے تک مہمان کو الوداع کرے۔
مزید پڑھیں:نبی مکرم کے مبارک ہاتھوں سے بسنے والے گھر
بوجھ اٹھانا:
حضرت رحمت للعالمین کی سیرت مطہرہ میں ام المؤمنینؓ نے جس تیسری صفت کا ذکر فرمایا ہے وہ ہے ’’تَحملُ الکَلَّ‘‘ یعنی :بوجھل کا بوجھ اٹھانا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ اعلان نبوت سے پہلی کی ہے ۔آپ دوسروں کے بوجھ اور مشقت کو اپنے اوپر لیتے تھے ۔یہ محتاج عاجز ہے اور اس کے متعلق اس کی مدد کا تذکرہ نہیں کہ اس عاجز کی مدد فرماتے تھے بلکہ اس کے بوجھ کو مکمل اٹھاتے تھے ۔
اب یہ عاجز عام ہے ۔ وہ مریض بھی ہوسکتاہے ، کوئی اپاہج بھی ہوسکتاہے ، کوئی بزرگ بھی ہوسکتاہے ، کوئی یتیم بھی ہوسکتاہے، کوئی مسافر بھی ہوسکتاہے ، کوئی بچہ بھی ہوسکتاہے وغیرہ وغیرہ۔
اور بوجھ کی بھی مختلف اشکال ہوسکتی ہیں ، ممکن ہو وہ مادی ہو یا فکری ہو یا معنوی ہو ۔
دوسروں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی بنانا اور اور ن کے بوجھ کا تحمل کرنا یہ رحمت للعالمین کی عادت مبارکہ اور سنت مطہرہ ہے۔یہ بعثت سے پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی رہی۔
سچ بولنا:
آپ کے صفات میں سے ایک صفت سچ بولنا ہے ۔ایسے لوگوں کے ساتھ بھی سچی بات کرنا جوآپ کے ساتھ سچ نہ بولتے تھے بلکہ جھوٹ بولتے تھے۔
محتاج کی ضرورت پوری کرنا :
پانچویں صفت مبارکہ ام المؤمنینؓ نے جو ذکر فرمائی ہے ،وہ ہے ’’وتکسب المعدوم‘‘  یعنی: آپ نادار کو کماکر پیش فرماتے تھے ۔
نادار کو عربی میں ’’معدوم‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ غنی اور مالدار کی نظر میں کچھ نہیں ہوتا ، یا وہ نادار اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا۔درحقیقت حاجت انسان کو لاشیٔ بنادیتاہے ۔اس کی تفسیر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تمام لوگ جس کو دینے سے اعراض کرتے آپ انہیں عطافرماتے تھے۔
مصیبت زدگا ن کی مد د کرنا:
چھٹویں صفت جس کا ام المؤمنینؓ نے آپ کے حوالے سے بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ : نا گہانی آفات کے مواقع پر مصیبت زدگان کی امداد کیلئے پہنچنا۔
آفت زدہ کی یہ امداد عالی اخلاق اور عمدہ خصائل میں سے ہے جو تمام خیرات اور مناقب کو جامع ہے ۔ابن حجر فرماتے ہیں : یہ مقولہ تمام مکارم وفضائل کا جامع ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات آپ کی بعثت سے قبل اور بعد کی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دیگر کے بوجھ کو اپنے سر لیتے اور مصیبت زدہ کی امداد کرتے اور مظلوم کا ساتھ دیتے تھے۔
آپ قبل از اسلام اہل مکہ کے ایک اخلاقی ضابطہ جو حلف الفضول کے نام سے مشہور تھا ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں اپنے چچازادوں کے ساتھ عبد اللہ بن جدعان کے گھر ایک عہد نامہ میں شامل ہوا، میں کسی قیمت پر اسے چھوڑنے والا نہ تھا۔
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ایک شخص اراشی سے مکہ آیا اور ابو جہل نے اس سے اونٹ خریدا اور اس کی قیمت اداکرنے میں  پس وپیش کرنے لگا، تو اس اراشی شخص نے قریش کے درمیان آکر امداد طلب کی او ر اپنا قصہ بیان کیا کہ ابو جہل نے مجھ سے اونٹ خریدا ہے اور قیمت اداکرنے میں پس وپیش کررہاہے۔تم میں سے کون ہے جو میرا حق ابو جہل سے مجھے دلائے؟ میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں اور ابو جہل میرا حق مجھے نہیں دے رہا ،تو قریش نے طنزاً اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ اس شخص کے پاس جاؤ ، وہ تمہارا حق تمہیں دلوائے گا۔
مزید پڑھیں:اللہ تعالیٰ اور رسول سے محبت کا ذریعہ ، ذکر ، شکر ، فکر
قریش ابوجہل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کو جانتے تھے اور از راہِ مذاق اس شخص کو آپ کی طرف بھیجا۔ جب وہ صاحبِ حق آپ کے پاس آیا اور اپنا قصہ بیان کیا اور آپ سے مدد طلب کی اور یہ بھی بتایا کہ میں نے قریش سے مدد طلب کی تو انہوں نے آپ کی طرف بھیجا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سننے کے بعد اسے اپنے ساتھ لیکر ابو جہل کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب قریش نے آپ کو اس شخص کو اپنے ساتھ لیکر چلتے دیکھا تو انہوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ تم جاکر دیکھو کہ یہ کیا کرتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صاحبِ حق شخص کو لیکر ابو جہل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں ۔
(جاری ہے)
ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کے دیگر مضامین پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
 
 
 

شیئر: