فرخندہ شاہد۔ریاض
آج گرلز کالج میں تقریری مقابلے کا انعقاد تھا اور سارہ رحمن، حَسنِ اخلاق پر بڑی خود اعتمادی سے بول رہی تھی جو پہلے کبھی چار لوگوں کے سامنے بول نہیں سکتی تھی۔ اس کی تقریر کے آخری جملے تھے کہ معاشرے میں اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا نے کے لئے انسان کا خوش شکل یا صاحب حیثیت ہونا ضروری نہیں بلکہ خوش اخلاق ہونا ضروری ہے ۔انسان اپنے حُسنِ خلق کے ذریعے ہر ایک کا دل جیت لیتا ہے اور ہمارے اللہ کریم اور اسکے پیارے نبی کا بھی یہی فر مان عالی ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے ہمیں سب سے بہترین اخلاق اپنانے کی تا کید فرمائی ہے اور آپ بہترین اخلاق کا اعلیٰ نمو نہ تھے ۔
سارہ کی تقریر پرپورا ہال تا لیوں سے گو نج رہا تھا۔کافی دیر تک تالیوں کی آواز سارہ کے کا نوں سے ٹکرا تی رہی۔کچھ دیر کے بعد نتیجے کا اعلان ہواتو سارہ کو دوسری پوزیشن ملی۔ سارہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے ٹرافی پکڑی۔ آنکھوں میں تشکر کے آنسو جھلملا رہے تھے ۔ اسٹیج سے اتر کر اس نے اپنی پیاری سہیلی کو گلے لگایا ۔آج سارہ کو جو کامیابی ملی وہ اپنی پیاری دوست ندا کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ملی تھی۔
دیکھو میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ تم بہت کچھ کر سکتی ہو لیکن تم تو ہمت ہی نہیں کر پا رہی تھیں۔ بہت مبارک ہو ،ندا نے سارہ کو پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
آج سارہ بہت خوش تھی۔ اس کی کا میابی پر اس کے امی ابو پھو لے نہیں سما رہے تھے ۔تمام گھر والوں ،بہن بھائیوں نے سارہ کا اس کی خوشی میں سا تھ دیا۔ سب بہت خوش تھے۔میں کتنی بدل گئی ہوں۔ زندگی کتنی خوبصورت لگنے لگی ہے۔ دن بھرکی تھکی ہوئی سارہ نے بستر پر لیٹتے ہوئے سوچا اور سوچوں کا دائرہ کچھ سال پیچھے ماضی تک چلا گیا:
”میں، سارہ رحمن، عا م سے گھرانے کی عام سی لڑکی خود اپنی نظروں میں بھی اور لوگوں کی نظروں میں بھی۔میں اپنے آپ کو بچپن سے ہی لوگوں کی نظروں میں بے مول اور عام سمجھتی تھی ،بہت سی خا میوں کے ساتھ۔رنگت بھی باقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں تھوڑی سانولی تھی۔ شاید اسی لئے احساس کمتری کا شکار تھی۔شاید چند خوبیاں بھی تھیں لیکن مجھے اپنی خوبیوں سے آگاہی نہیں تھی۔ بس دماغ ہر وقت انہی سوچوں میں مصروف رہتاتھاکہ سب کی توجہ کس طرح اپنی طرف دلائی جائے لہٰذا ہر وقت نت نئی شرارتیں کرنا، بہن بھائیوں کو ستانے کے منصوبے بنانا اور ہر وقت ہر کسی سے شکایت رہنا ۔ امی جان اور ابا جان ہمیشہ میری ہر ضد پوری کرنے کی کو شش کرتے،وہ کوئی بھی بات کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کے سمجھا تے لیکن میں نے تو جیسے نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ پڑھائی میں بھی واجبی تھی۔ ہمیشہ باقی بہن بھائیوں سے کم نمبر آتے کیونکہ پڑھائی سے زیادہ توجہ شرارتوں پر ہوتی تھی ۔کبھی بہن بھائیوں کے کھلونے توڑ دیئے ،کبھی بہنوں کا گڑیا کا گھر خراب کر دیا وغیرہ وغیرہ۔غرض ہر وقت پانی پت کی جنگوں کا سا سماں گھر میں بنائے رکھتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں سب کو ستانے میں مجھے مزا آتا تھا اور جب بہن بھای میری شکایت لگاتے تومیں ہی سب سے زیادہ روتی دھوتی اور شکایتوں کا ایک انبار ہوتا۔ میں باور کراتی کہ میں تو مظلوم ہوں، سارا قصوردوسروںکا ہے۔
اگر کبھی باہر محلے کے بچوںکے ساتھ کھیلنے کا موقع ملتا تو بھی لڑ جھگڑ کر واپس روتے ہوئے ایک نیا شکایت نامہ لے کر آجاتی۔ کئی دفعہ تو محلے کے بچوں کے ہاتھوں خوب پٹائی بھی ہوئی لیکن فطرت نے نہ بدلنا تھا اور نہ بدلی۔
کھانا کھاتے ہوئے دسترخوان پر بھی عجیب تماشا بر پا ہوتا۔ تب بھی شکا یتیں ہی شکا یتیں کہ میری پسند کی تو کوئی چیز ہی نہیں بنتی بلکہ باقی بہن بھائیوں کی پسند کی چیزیں بنتی ہیں اور کبھی کبھار تو امی جان تنگ آکر جوتوں سے بھی تواضع کربیٹھتی تھیں لیکن میں نے تو نہ سدھرنے کی ٹھان رکھی تھی۔
امی ابو کی لائی ہوئی ہر چیز پر اعتراض ہوتا اور یہی شکایت ہوتی کہ ساری اچھی چیزیں تو باقی بہن بھائیوں کو دلاتے ہیں، میری تو کوئی بھی چیز اچھی نہیں ہوتی ۔تبھی تو سب بچوں نے میرا نام ”شکا یتی ٹٹو“ رکھ دیا تھا۔جب بھی حسب معمول امی جان اور ابو جان کے سامنے میرے شکایت نامے کا آغاز ہوتا تو آس پاس سے بہن بھائیوں کی کھسر پھسر شروع ہو جاتی اور شکا یتی ٹٹو شکایتی ٹٹو کی آوازیں جیسے ہی میرے کانوں سے ٹکراتیں، میں چڑ کر اور زیادہ رونا شروع کر دیتی۔ ایسے میں امی ابو کے لئے مجھے سمجھانا اور باقی بہن بھائیوں کو دھمکانا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔مجھے اپنے اساتذہ سے الگ شکایت رہتی کہ ٹھیک سے پڑھاتے نہیں ۔باقی بچوں کے مقابلے میں مجھے توجہ نہیں دیتے ۔اس لئے نمبر کم آتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
وقت کا پہیہ چلتا گیا ۔بچپن گزر گیا۔ جیسے تیسے میٹرک کر لیا۔ انٹر کرنے کے لئے کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں بھی وہی عادتیں ،وہی گلے شکوے۔ نہ کسی سے بنتی تھی، نہ کسی سے اچھی دوستی ہو سکی اور ہوتی بھی کیسے، ہر کسی سے شکایت جو رہتی تھی۔ پڑھائی کے علاوہ کبھی کسی سرگرمی میں حصہ بھی نہیں لیا کیونکہ یہاں بھی یہی شکایت اساتذہ سے ہی تھی کہ مجھے سلیکٹ ہی نہیں کر تے،پھر اچانک میری زندگی میں تبدیلی آگئی۔ جب ندا نے میری کلاس میں داخلہ لیا۔ وہ ندا کا کلاس میں پہلا دن تھا۔ ندا عام سے خدو خال کی لڑکی تھی۔ وہ پہلے دن آکر میری ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئی،مسکرا کر مجھے اپنا نام بتایا۔ میں نے حسب عادت اسے نظر انداز کر دیا اور دل ہی دل میں بڑ بڑائی کہ میں نے بھلا پوچھا تھاکہ آپ کا کیا نام ہے؟
ندا بہت ہنس مکھ ،خوش اخلاق اور بہت اچھی عادات کی مالک تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے اپنی خوش اخلاقی اور ذہانت کے باعث تمام اساتذہ اور پوری کلاس کے دل میں گھر کر لیا۔ وہ مجھ سے بھی بہانے بہانے سے باتیں کرنے لگتی۔ نہ جانے اس کی شخصیت میں ایسی کیا کشش تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس سے باتیں کرنے لگتی اور آہستہ آہستہ اس نے مجھے اپنی سہیلی بنا لیا ،مجھے پتہ بھی نہ چلا ۔اب ہماری دوستی پکی ہو گئی تھی۔
میں ندا سے خوب باتیں کرتی ،اپنے دل کی باتیں اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرنا بھی شروع کر دیا ۔ندا ہی کے کہنے اور حوصلہ افزائی کرنے پر میں نے کالج کی مختلف غیر نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا کیونکہ میری ذات کی وہ صلاحیتیں نما یا ں ہونے لگی تھیں جن کا مجھے پہلے اندازہ نہیں تھا۔ اس طرح میرے مزاج میں بھی نمایاں تبدیلی آنے لگی۔ مجھے ہرکسی کی نظروں میں پسندیدگی دیکھ کر خوشی ہونے لگی اور دل ودماغ سے شکایات اور بد گمانی کے با دل چھٹنے لگے۔ آج میں جس خوشی سے سر شار ہوں، وہ سب ندا کی حوصلہ افزائی اور حسن سلوک کی وجہ سے ہے جس نے میری زندگی کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا ۔واقعی یہ بات سچ ہے کہ آپ پیار اور حسن سلوک سے دنیا کو تسخیر کر سکتے ہیں۔ پیار سے ہی ہر کسی کے دل کو جیتا جاسکتا ہے۔ اس تمام تحریر کو دواشعار میں یوں سمویا جا سکتا ہے:
تصور کو خود اپنی تصویر کر لے
محبت سے دنیا کو تسخیر کرلے
بنااپنے لمحوں کو فرخندہ ایسے
تبسم کوہی اپنی تدبیر کر لے