کسی اجنبی شخص کے پاس پتہ بتانے، ٹافیاں لینے، مدد کرنے یا پھر لفٹ لینے کبھی مت جائیں بلکہ وہاں سے جتنی جلد ہوسکے دور چلے جائیں، گھریلو ملازمین سے بھی فاصلہ رکھیں
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
آج میرا مخاطب اس تحریر کے ذریعے بچے ہیں۔میں بچوں کو ان کی حفاظت کے کچھ اصول بتانا چاہتی ہوں۔
بچو! حفاظت کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے مگر جس اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی نے عقل و شعور بھی دیا ہے کہ ہم دنیا میں اپنی زندگی کو آرام دہ اور محفوظ بنا ئیں۔
آپ نے حال ہی میں ایک بچی زینب کے بارے میں پڑھا یا سُنا ہو گا ۔یہ پیاری سی معصوم بچی قصور کی رہنے والی تھی جس کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔یہ واقعات اب آہستہ آہستہ عام ہوتے جا رہے ہیں اس کی وجہ قانون کی کمزوری اور ہماری لاپروائی ہے۔ ہم ایسے واقعات پڑھتے اور سُنتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں۔ پھر کوئی نیا واقعہ سُنتے ہیں تو تھوڑے دِن افسوس اور احتجاج کرتے ہیں، اس کے بعد پھر وہی معمول۔
بچوں! آج کے بچے سمجھدار ہیں۔ اگر انہیںسمجھایا جائے تو وہ اپنی حفاظت خود بھی کر سکتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ کبھی کوئی انکل آپ کو اپنے پاس بُلاتے ہیں۔ یا پھر کوئی گاڑی آپ کے پا س آکر رُکتی ہے اور انکل آپ کو اشارے سے بُلاتے ہیں کہ’’بیٹا ! ذرا یہاں آیئے، ذرا یہ ایڈریس تو بتایئے؟؟‘‘۔ کبھی کوئی اجنبی انکل ٹافیاںلے کر قریب آتے ہیں کہ ’’یہ لیجئے بیٹا ! یہ ٹافیاں لے لیں، میں نے اپنے بچے کے لئے لیں تو لگتا ہے زیادہ خرید لیں۔ اب واپس کیا کروں آپ لے لیں‘‘۔
اگر آپ ایسے انکلز کے پاس گئے تو ضرور خُدا نخواستہ نقصان اُٹھائیں گے۔کبھی کوئی صاحب کہیں بیٹھے دکھائی دیں گے راستہ سنسان اور آس پاس کوئی نہیں۔ آپ گُزرے اور انکل نے پکارا ’’ ادھر آئو بچے ! میری طبیعت خراب ہے ذرا سامنے دکان سے پانی کی بوتل لے آئو یہ لو پیسیــ‘‘ ا ور ان کے ہاتھ میں پیسے ہونگے جو وہ آپ کی طرف بڑھارہے ہو نگے۔
ایک اور واقعہ جس کا میری دوست کے بچے کو اتفاق ہوا یعنی یہ واقعہ میری دوست کے بچے کے ساتھ پیش آیا اور اس نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ گرائونڈ سے کھیل کر واپس آرہا تھا تو ایک صاحب نے گاڑی روک کر اسے کہا کہ’’آئو بیٹا! تمھیں تمھارے گھر تک چھوڑ دوں ، اس نے منع کر دیا کہ ’’نہیں شکریہ انکل میرا گھر قریب ہے میں چلا جائو نگا‘‘
تو انہوں نے کہا’’ارے بیٹا! میں تمھارے گھر ہی جا رہا ہوں ، میں تمھارے والد کے آفس میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں اور ان سے ملنے آیا ہوں آئو میرے ساتھ۔۔۔۔‘‘۔بچے کے انکار پر وہ گاڑی سے اُتر کر اس کے پاس آنے لگے کیونکہ وہ بات کرتے کرتے فلیٹ کی سیڑھیوں پر چڑھ گیا تھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا اور اس نے دوڑ لگا د ی۔ انکل نے گاڑی میں اس کا پیچھا کیا مگر وہ ڈاج دینے میں کامیاب ہو گیا۔
ایک اور کام کی بات بتاتی چلوں سڑک پر اگر کوئی گاڑی والا روک کر کچھ پوچھے تو اُس سے جان چُھڑانے کے لئے روڈ کی سمت کبھی نہ بھاگو بلکہ ہمیشہ اُس کے مخالف سمت بھاگو تاکہ وہ تمھار ا پیچھا نہ کر سکے۔
یہ تو صرف چند واقعات ہیں ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بچوں کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ یاد رکھئے! کسی بھی اجنبی آدمی کے پاس پتہ بتانے، ٹافیاں لینے ، مدد کرنے یا پھر لفٹ لینے کبھی مت جائیں بلکہ وہاں سے جتنی جلدی ہو سکے دور چلے جائیے۔ اجنبیوں کے علاوہ دور کے جاننے والوں ، گھریلو ملازمین سے بھی فاصلہ رکھئے۔ کسی سفر پر جائیں تو ڈرائیورز یا کلینرز سے زیادہ گھلنے ملنے سے پرہیز کریں۔
کسی غیر کی تعریف پر خوشی سے بے قابو ہو کر اپنے حواس مت کھو دیں۔ اگر کوئی غیر یا ایسا شناسا شخص جیسے آپ تھوڑا بہت جانتے ہوںیااس سے کم واقفیت ہو اس کی تعریف اور آپ کو بار بار پیار کرنے یا چُھونے پر فوری طور پر خود کو اس سے دور کر لیں اور والدین کو ضرور بتائیں۔
کسی ویران یا سنسان جگہ سے گُزرتے ہوئے وہاں سے جلد از جلد نکلنے کی کوشش کریں ۔رُک کر کسی سے بات چیت نہ کریں بلکہ ایسے ویران مقامات پر بیٹھے ہوئے فقیروں کو رُک کر خیرات بھی مت دیں۔ میری دوست کے چچا کو ایک فقیر نے ہی اغوا کر لیا تھا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر فقیر کو خیرات دینے گئے جو کہ آگے نکل چکا تھا ۔ گلی سُنسان تھی انہوں نے فقیر کو آواز دی جو اباً فقیر نے اُنہیں پاس بُلا کر بھیک دینے کو کہا ۔وہ اس کے پاس گئے تو اس نے انہیں فوری طور پر کوئی دوا سُنگھا کر کندھے پر اُٹھا کر قریب ہی کھڑی ہو ئی گاڑی میں جو پہلے سے اُس نے کھڑی کی ہوئی تھی لے کر چلا گیا۔وہ والدین کی دُعائوں اور اللہ کے کرم سے 3 سال بعد ایک مزار پر بھیک مانگتے ہوئے پولیس کو ملے ۔ فقیر اور اس کے گروپ کے لوگ فرار ہو گئے ۔ انہوں نے والدین کو بتایا کہ اغواء کرنے والوں نے بہت سے بچوں کو معذور بنا کر دوسرے علاقوں میں بھیک مانگنے بھیج دیا اور کچھ بچوں سے چور یاں بھی کروائی جاتی تھیں۔
یہ تدابیر یا واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ آپ کوشش کریں کہ اپنے گھر والوں کے سوا کسی کے ساتھ غیر ضروری میل جول قائم نہ کریں اور نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ آیتہ الکرسی پڑھ کر ہر روزخود پر دم کریں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے۔ بے شک وہی ہم سب کا مالک و مختار اور سب سے بڑا نگہبان ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭