جمود کی گزشتہ کیفیت ختم ہوچکی ، آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاہدے ہونے جارہے ہیں
ابو احمد
ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ امریکہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں سعودی امریکی تعلقات میں جو جمود آگیا تھا وہ ٹرمپ کے دورہ صدارت میں ختم ہوکر سرگرمی میں تبدیل ہوگیا۔ گزشتہ سال 23جون کو امریکی صدر نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کےلئے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا۔ اب ولی عہد محمد بن سلمان نے منصب سنبھالنے کے بعدپہلے غیر ملکی دورے کیلئے جن ممالک کا انتخاب کیا ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عرب ممالک میں سعودی عر ب کا سب سے بڑاحلیف مصر ہے جہاں سے ولی عہد نے اپنے غیر ملکی دورے کا آغاز کیا۔ یورپی ممالک میں برطانیہ کا شمار سعودی عرب کے تاریخی حلیفوں میں ہوتا ہے۔ ولی عہد کا دوسرا غیر ملکی دورہ برطانیہ کیلئے تھا جبکہ عالمی سطح پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان نہ صرف تاریخی تعلقات ہیں بلکہ دونوں ممالک اسٹراٹیجک شریک بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد کے بیرون ملک دورے کا سرکل امریکہ میں مکمل ہوتا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ولی عہد کا دورہ امریکہ اس لحاظ سے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ جہاں دونوں ممالک مختلف معاملات میں ہم آہنگی رکھتے ہیں وہاں عنقریب آرامکو کمپنی کے حصص فروخت کیلئے پیش کئے جائیں گے۔نیویارک میں دنیا کی سب سے بڑی شیئر مارکیٹ ہے جو ولی عہد کے دورہ میں شامل ہے۔ آرامکو کے حصص آئندہ چند مہینوں میں فروخت کیلئے پیش کئے جائیں گے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکی شیئر مارکیٹ بھی اس بات کی حریص ہے کہ آرامکو کے حصص فروخت کرنے میں اسے بھی موقع ملے۔ مبصرین کا کہناہے کہ ولی عہد کا دورہ امریکہ اور خاص طور پر نیویارک دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورے کے دوران امریکی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی ترغیب بھی دینگے۔ سعودی عرب اس وقت عالمی کمپنیو ںکیلئے کھلی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی ساز گار ماحول میسر ہے۔ سعودی قیادت نے جاپانی اور امریکی کمپنیوں کو اپنے ہاں سرمایہ کاری کی اجازت دے رکھی ہے۔ وژن 2030 میں سعودی عرب کو شراکت داروں کی تلاش ہے۔ سعودی امریکی تعلقات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وژن 2030 میں دونوں ممالک حصہ دار بنیں۔
خطے کو درپیش مختلف معاملات میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ شام کے بحران کے علاوہ خطے میں ایرانی مداخلت اور انسداد دہشتگردی میں دونوں ممالک کا موقف یکساں ہے۔مبصرین کا کہناہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں اگر ایران کو لگام نہ ڈالی گئی تو آئندہ کبھی نہیں ڈالی جاسکے گی۔ ولی عہد اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے ایجنڈے میں سرفہرست ایران ہے۔
امریکیوں کی خواہش ہے کہ مصر اور برطانیہ کی طرح وہ بھی وژن 2030 میں سعودی عرب کے شراکت دار ہوں۔سعودی حکومت کی پالیسی ہے کہ مملکت کے حوالے سے پرانا تصور ختم کیا جائے۔ اب تک سعودی عرب عالمی منڈی تھا جہاں ہر ملک کی مصنوعات فروخت کیلئے پیش کی جاتی تھیں۔سعودی معاشرہ محض صارف تھا۔ اسے حکومت کی مدد درکار تھی۔ اب سعودی قیادت اس تصور کو ختم کرکے سعودی معاشرے کو پیداواری معاشرہ بنانا چاہتی ہے۔ سعودی عرب نہ صرف دیگرممالک کی مصنوعات کی منڈی ہو بلکہ عالمی کمپنیاں یہاں آکر سرمایہ کاری کریں اوراپنی مصنوعات کی ٹیکنالوجی سعودیوں کو منتقل کریں۔ ولی عہد نے اب تک جتنے بھی عسکری معاہدے کئے ہیں ان میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ترقی یافتہ ممالک عسکری صنعت کی ٹیکنالوجی سعودی عرب کو منتقل کرینگے۔
مئی 2017ءکے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان عسکری شعبے میں تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ اسکی مالیت 110بلین ڈالر تھی۔ معاہدے کے مطابق امریکہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاع کے شعبے میں شراکت دار ہوگا۔ اسی معاہدے کے تحت امریکہ سعودی افواج کو ٹیکنیکل امداد فراہم کریگا۔ معاہدے میں جن چیزو ںکو ملحوض رکھا گیا ان میں سرحدوں کی حفاظت ، فضائی دفاع ، سائبر سیکیورٹی اور کمیونی کیشن سیکیورٹی بھی شامل تھا۔ ان تمام شعبوں میں امریکہ سعودی عرب کی نہ صرف مدد کریگا بلکہ ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے کا پابند ہے۔ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں امریکی عسکری صنعتوں کی معروف کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی ہے جس کے تحت امریکی کمپنی لڑاکا ہیلی کاپٹر بلیک ہاک کی صنعت کو سعودی عرب میں منتقل کریگی۔ 6بلین ڈالر کے اس معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ 150بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سعودی عرب میں تیار کئے جائیں گے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ 80سال پر محیط ہیں ۔ اس عرصے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاﺅ بھی آتا رہا ہے تاہم مجموعی طور پر دونوں ممالک مختلف معاملات میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دورِاقتدار میں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات نکتہ¿ عروج پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ولی عہد کا دورہ امریکہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جمود کی گزشتہ کیفیت ختم ہوچکی ہے اورسرگرمیاں عروج پر ہیں۔ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاہدے ہونے جارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭