وہ جانتی تھی بزرگوں کا فیصلہ بہترین ہوتا ہے
زینت شکیل۔جدہ
وہ مغربی نقوش کی حامل مشرقی لڑکی تھی۔وہ اسے گھنے درخت کے سائے تلے آہنی بنچ پر بیٹھے مطالعہ میں مصروف دیکھا کرتا تھا۔ کینٹین کے اطراف رش بڑھ جانے کے باعث ان کے گروپ نے فیصلہ کیا ہم اپنے ڈپارٹمنٹ کے سامنے ہی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھیں گے اور کینٹین بوائے کووہیں آواز دیکر بلا لیں گے اور سب اپنی مرضی کی چیزیں آرڈر کر دیں گے ۔احمد نے اپنی گاڑی کی چابی دور سے آتے سستی سے قدم اٹھاتے سلیمان کی طرف اچھالی۔اس نے فوراً کیچ کی اور تیزی سے پارکنگ لاٹ کی جانب بڑھا۔ہارون نے زور کا قہقہہ لگایا اور اس کا ساتھ دوسروں نے مسکراہٹ سے دیا ۔ وہ سب کی بلند آواز سنتا تیز قدم اٹھاتا چلا گیا۔ امجد نے کہا ” اس کے پاس جو گاڑی ہوتی ہے وہ اس سے کچھ عرصے میں بور ہوجاتا ہے لیکن احمد کی گاڑی کو اسکی ہر وقت کی پسندیدگی مل جاتی ہے۔ جہاں موقع ملے اپنی کار چھوڑ کر اسکی گاڑی چلانے کی کوشش میں رہتا ہے۔“
یوسف ایسے موسم کے انتطار میں رہتا تھا جب موسم سرما میں ہلکی ہلکی بارش کے بعد نرم ہوائیں چلتی ہوں اور دھوپ میں تپش نہ ہو۔ اسی لئے گاڑی میں موجود سی سائیڈ پر استعمال کیا جانے والا دھوپ سے بچاﺅ کا شیڈ اور اسکے ساتھ کرسیوں کے سیٹ کئے جانے کا بھی انتظار نہ کیا اور بارش کی بوندوں سے گیلی گھاس پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ گاڑی قریب لا کر سلیمان نے سب سے پہلے فولڈنگ شیڈ کو سیٹ کیا اور سب نے ہی ایک ایک فولڈنگ چیئرکھولی اور آرام سے براجمان ہو کر اب یہ مرحلہ طے کرنا تھا کہ کیا کیا چیزیں آرڈر کرنی ہیں۔
وہ اپنی کسی بات پر ضد نہیں کیا کرتی تھی۔جانتی تھی کہ جو بزرگوں کا فیصلہ ہوتا ہے وہ بہترین ہوتا ہے اس میں انکی زندگی بھر کا مشاہدہ اور تجربہ شامل ہوتا ہے۔آج بھی انکی صبح اس گرما گرم چائے کے ساتھ ہوئی جووہ بنا لائی تھی۔دادای جان نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھا لیااورکہاکہ ” تم جانتی ہو اب تمہارے باباجان بالکل ناراض نہیں ہیں۔ دراصل لوگوں کا تو کام ہے سنی سنائی آگے بڑھادی،یہ جانے بغیر کہ انکی اس ادھوری بات سے دوسروں کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر انہیں اس بات کا اندازہ ہو جائے تو کبھی سنی سنائی باتیں اپنی زبان کے چٹخارے کے لئے نہ کیا کریں۔“
وہ خوشی کے عالم میں پوچھ رہی تھی کہ ” کیا میں اب ہاسٹل میں اپنی وارڈن کے پاس سال بھر کے فارم پر سائن کر دوں؟“ انہوں نے اسکی خوشی سے چمکنے والی آنکھوں میں دیکھتے ہو ئے اس کی دلی خواہش کا اندازہ لگالیا اور زبان سے تو اسکی بات کا جواب ”ہاں ” میں دے دیا لیکن دل کو اپنے تسلی دے رہی تھیں کہ اپنے بیٹے کو آج نہیں تو کل اس بات کے لئے ضرور رضامند کر لیں گی اور وجہ بھی اسکی درست ہے کہ جب اتنے اعلی تعلیم یافتہ گھرانے میں بیٹی کو رخصت کرنا ہے تو جہاں تک ہو سکے تعلیم جاری رکھنی چاہئے ۔
وہ لوگ اس عجیب قسم کی ڈش کو سمجھ نہیں پائے تھے’ جس کے بارے میں محترمہ پورے وثوق سے بتا رہی تھیں کہ میں نے اس ڈش کو پہلی دفعہ ٹرائی کیا ہے لیکن پکانے کا طریقہ مکمل پڑھتے اور اس کو فالو کرتے اس کاغذ پر اتنے رنگ کے مصالحے لگ چکے ہیں کہ کوشش کے باوجود اس کا نام نہیں پڑھا جاسکتا ۔ اس لئے آج اسے اسکے نام کے بغیر ہی ٹرائی کر لیں نام کل پوچھ کر بتا دوں گی۔“
وہ مطمئن تھی کہ جب اس نئی ڈش کو کھانا شروع کیا جائے گا توضرور پسند آئے گی ۔ اسکا اندازہ درست ثابت ہوا جب ان میں سے ایک فرد نے اس عجیب و غریب مرغوبے کو اپنی پلیٹ میں لیا اور پہلے لقمے کے بعد اسکے نام کی طرح اسکے جملہ اجزائے ترکیبی سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا لیکن ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اتنی تھکن میں باہر جاکر کھاناکھانے کی ہمت مجھ میں تو نہیں ہے باقی تم لوگ اپنے اپنے موڈ کا اندازہ خود ہی لگالو لیکن ایک کے بعد ایک چمچہ منہ تک پہنچانے میں وہ اتنا مگن تھا کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ ان لوگوں نے بھی بالآخر اس غذائی جہد کو پاسنگ مارکس دے دیئے تھے۔
وہ اپنی جگہ پر موجود تھی۔ان میں اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ بچپن کی شادی کی یا رشتے کی اہمیت کوئی آج کل قبول نہیں کرنا چاہتا اس لئے بزرگوں کو چاہئے کہ اب اس سلسلے کو موقوف کر دیں۔احمد انکی بات توجہ سے نہیں سن پایا تھا کیونکہ اس کی نگاہ بار بار اس کی جانب اٹھتی تھی جسکا چہرہ بھی اپنی فائل پر جھکے ہونے کے باعث نظر نہیں آتا تھا ۔
متوجہ کئے جانے پر اس نے اس نئی طالبہ کے بارے میں کہاکہ تمہاری اس ہم جماعت سے دوستی اب تک ہوئی تو نہیں ہوگی کیونکہ اس قدر مغرور لڑکی سے کون دوستی کر سکتا ہے۔معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ تم لوگوں سے بات کرنا تو دور کی بات ہے سلام کا جواب تک نہ دیتی ہو گی ۔ اس نے اس کی حمایت میں فوراً کہا وہ بہت تہذیب یافتہ لڑکی ہے اس کا تعلق بھی ہمارے ہی علاقے سے ہے اور وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو اپنے گاﺅ ں سے یہاں آکر اتنے اچھے انسٹیٹیوٹ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم حاصل کرنا ہرمسلم پر واجب ہے ۔
٭٭جاننا چاہئے کہ مفید علم حاصل کرنا عمل کے ساتھ منسلک ہے۔