Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردن میں ایک ہفتہ

***خلیل احمد نینی تال والا***
پچھلے ہفتے راقم کو اُردن کے شہر عمان میں ایک علمی کانفرنس برٹش کیمرج سسٹم کے اجلاس میں شرکت کیلئے جانا پڑا۔پاکستان میں اس سسٹم سے منسلک بہت سے کیمرج اسکول باہر جاکر شرکت کرتے ہیں اور تعلیمی معلومات شیئر کرتے ہیں ۔ہمارا تعلیمی ادارہ کے این اکیڈمی تقریباً ہر کانفرنس میں نہ صرف شرکت کرتا ہے،بلکہ بہت سی اضافی تعلیمی معلومات بھی دیگر ممالک سے آئے ہوئے اسکولوں کے مندوبین سے شیئر کرتا ہے ۔پاکستان کے حالات کے پیش نظر بہت سے ممالک کے مندوبین پاکستان آنے سے کتراتے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان میں قائم برٹش ایمبسی اپنے پاکستانی اسکولوں کو دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سے نہ صرف تعلیمی معلومات شیئر کراتی ہے ۔ان کے مندوبین کے ویزوں ،قیام ،لیکچروں کا بندوبست کرتی ہے تاکہ دنیا بھر کے تعلیمی اسٹینڈرڈ سے  پاکستان کسی طرح بھی  پیچھے نہ رہے ۔یاد رہے کہ ایک زمانے تک اُردن خلیجی ممالک میں سب سے پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتا تھا ۔وہاں بھی دیگر خلیجی ممالک کی اکثریت کی طرح  کا نظام رائج تھا ۔اُردن کے بادشاہ شاہ حسین نصف صدی تک وہاں کے سیاہ وسفید کے مالک تھے مگر ان کی فوج اور عمان کا ایئر پورٹ ضیاء الحق   جب بریگیڈیئر تھے اور اُردن میں تعینات تھے تو اُن کی سربراہی میں موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی  کے پلان کے مطابق فوجی اور سول ایئر پورٹ بنایا گیا تھا ۔ ایوب خان کے دور میں شاہ حسین کے چھوٹے بھائی ولی عہد حسن کی شادی ہمارے بیورو کریٹ کی صاحبزادی ثروت اکرام اللہ سے ہوئی تھی۔ بعد میں شاہ حسن نے ولی عہد حسن کو ہٹاکر اپنے بیٹے شہزادہ عبداللہ کو ولی عہد نامزد کردیا ۔ان کے انتقال کے بعد سے شاہ عبد اللہ اُردن کے بادشاہ بن کر اُردنی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے دن رات کام کررہے ہیں ۔چونکہ شاہ عبداللہ نے تمام تعلیم امریکہ میں حاصل کی تھی ۔اسی طرح ان کا رجحان بھی امریکی تعلیم کی طرف ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جرمن ،برٹش نظام تعلیم بھی ساتھ  اُردن میں رائج ہے ۔اس وقت تعلیم کے معاملے میں اُردن دیگر  ممالک سے جو بہت امیر کبیر ہیں ، بہت آگے ہے۔  یہاں تک کہ پڑوسی خلیجی ممالک کے طلباء اضافی تعلیم کے لئے اُردن کا رُخ کرتے ہیں ۔تقریباً 25سال بعد جب اُردن جانے کا اتفاق ہوا ۔ کہاں اُردن کے طلباء پاکستان تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ۔آج اُردن تعلیم کے معاملے میں ہم سے بہت آگے جاچکا ہے ۔بڑی حیرانگی ہوئی اُردن میں عمان یونیورسٹی اور اُس کے کورس دیکھ کر بڑا رشک آیا۔بڑی بڑی عمارتوں میں ہر ملک کی تعلیمی یونیورسٹیاں بھری پڑی ہیں۔ اُردن کی مادری زبان تو عربی ہے مگر وہاں کثرت سے انگریزی اور فرانسیسی بولی جاتی ہے۔اُردن میں نہ تیل ہے نہ گیس۔ یہ عرب ممالک سے خصوصاً عراق سے حاصل ہوتا ہے۔مگر اب اُس کے اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہوچکے ہیں ۔تو اب نیا معاہدہ تیل اور گیس سستے داموں کا اسرائیل سے ہوچکا ہے ۔چاردن کے قیام کے دوران ہمارا قیام دریائے اُردن جس کو بحیرہ مردار (Dead Sea) بھی کہتے ہیں کے قریب تھا تو ہم نے اس دریا کی سیر بھی کی اور اُس کی خصوصیت اُس کی مٹی بھی بدن پر ملی۔ جس سے بقول اُردن عوام کے کہ اس چکنی مٹی میں گندھک ملی ہوئی ہے ۔جسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں وہ دریا میں بیٹھتے ہیں ۔سمندر ساکن ہے۔ کوئی ڈوب نہیں سکتا ۔ہر سال لاکھوں سیاح اُردن آتے ہیں اور اس سمندری مٹی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ اس سمندر کی دوسری طرف اسرائیل ہے جس کو عراق ،شام ،اُردن سمیت لبنان اور مصر نے تسلیم کرلیا ہے مگر ہم نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔حالات یہ بتاتے ہیں کہ بہت جلددیگر ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینگے ۔
اُردن کے شہروں میں سینکڑوں صحابہ کرام مدفون ہیں جن میں مسلمان سپہ سالار حضرت عبیدہ بن جراح، حضرت معاذ بن جبل اور ان کے صاحبزادے کے قبریں ساتھ ساتھ ہیں ۔ راقم وہاں گئے۔ ان دونوں باپ بیٹوں کی قبر سے خوشبو آرہی تھی جو ایک معجزہ تھی ۔ وہ اُس زمانے میں طاعون کی وبا ء کے سبب انتقال کرگئے تھے ۔
اُردن کے عوام بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس وقت فلسطین ،شام ،لبنان کے مہاجرین اکثریت سے آباد ہیں ۔اُردنی حکومت  نے ان کو اقامے بھی دے دیئے ہیں تاکہ وہ نوکریاں اور کاروبار کرسکیں ۔حکومت بنیادی تعلیم اور علاج معالجہ کی مفت سہولت دیتی ہے۔یہاں اصحابہ کیف کا غار بھی ہے اور ٹوٹی پھوٹی شداد کی جنت کے بھی آثار پائے جاتے ہیں ۔ایک بہت بڑی پہاڑی پر فاتح فلسطین سلطان صلاح الدین  کافوجی قلعہ بھی ہے جو فلسطین کی حفاظت کے لئے انہوں نے بنوایا تھا تاکہ بیرونی حملوں سے محفوظ رہیں ۔یہاں حضرت خضر کی مسجد بھی ہے ۔عوام کا خیال ہے کہ وہ بہاں کہیں مد فون ہیں ۔ایک اہم ذریعہ معاش کھیتی باڑی کا نظام ہے  جہاںاسرائیل کی طرح قطرے قطرے   پانی سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ہماری طرح کھیتوں میں پانی نہیں چھوڑا جاتا بلکہ قطرہ قطرہ پانی دینے کیلئے پائپ لائنوں میں باریک سوراخ ہوتا ہے جس سے 95فیصد پانی کی بچت ہوتی ہیں ۔ 
اسرائیلی اور اُردنی افراد اس دریائے مردار کے کناروں سے ایک دوسرے کے ملک میں آجاسکتے ہیں۔ ۔صرف ایک باڑ کی بارڈر ہے جو اُردن اور فلسطین کو جُدا کرتی ہے ۔اکثر اُردنی مسلمان اسرائیل کی مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھنے جاتے ہیں جوایک گھنٹے کی مسافت کے فاصلے پر واقع ہے ۔فلسطینی مسلمان صرف جمعہ پڑھنے جاسکتے ہیں۔ وہ بھی بوڑھے مرد اور عورتوں کو اجازت ہے ۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اکثر کشیدگی پائی جاتی ہے لہذا جگہ جگہ بڑی بڑی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں تاکہ فلسطینی آجانہ سکیں ۔
سیاحوں کے لئے حکومت نے بہت مقامات اور خوبصورت پہاڑی سلسلے بنارکھے ہیں علاقہ پطرہ بھی بہت خوبصور ت،دلکش بنا رکھا ہے۔ایک چھوٹی پہاڑی پر حضرت موسی کے قبر بھی ہے ۔ سبزیاں ،فروٹ اور سیاح اُردن کا زریعہ آمدنی ہیں ۔بڑے بڑے اسپتال اور میڈیکل کالجوں کی بھی بھر مار ہے۔ خصوصاً عراق اور خلیجی ممالک میں کثرت سے ادویہ ایکسپورٹ کی جاتی ہیں ۔بادشاہت کے ساتھ جمہوریت بھی ہے ۔عوامی پارلیمنٹ بھی ہے جو عوام کے بھلائی کیلئے بہت کام کرتی ہے ۔البتہ بادشاہ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے ۔موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے سردیوں میں برف باری بھی ہوتی ہیں ۔گرمیاں بھی زیادہ نہیں پڑتی اور بارش بھی بہت ہوتی ہے ۔جس سے پورا ملک ہرا بھرا رہتا ہے ۔کھانے وہی عربوں کی طرح ہیں ۔عمان شہر میں فائیواسٹار ہوٹلز اور مالز بھرے پڑے ہیں ۔غیرملکی سیاحوں سے  40دینار وصول کئے جاتے ہیںجو ڈالر اور پونڈسے بھی زیادہ مہنگاسکہ ہے پھر بھی سیاحوں سے ہوٹل ،ریستوران سارا سال بھرے رہتے ہیں ۔پولیس ہر بڑے علاقہ شروع ہونے سے پہلے کیمپ میں نظر آتی  ہے ۔ملک میں پوری طرح امن وامان ہے لہذا سیاح آسانی سے گھوم پھرسکتے ہیں۔ ایک ہفتے میں آپ پورا ملک گھوم سکتے ہیں۔
 

شیئر: